جرمن، اسرائیل کابینہ اراکین کا اجلاس، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
19 جنوری 2010اسرائیل اور جرمنی کے درمیان حکومتی صلاح ومشورے کا سلسلہ شروع کرنے کا مقصد تھا دونوں ممالک کے مابین غیر معمولی تعلقات پر زور دینا اور اور یہودیوں سے متعلق جرمنی پرعائد تاریخی ذمہ داریوں کے احساس کا بھرپور اظہار کرنا۔ حکومتی مشاورت کا یہ سلسلہ جرمنی نے فرانس کے ساتھ ایک عرصے سے اور پولینڈ کے ساتھ چند سالوں سے جاری رکھا ہوا ہے۔ دراصل یہ ایک اچھا خیال ہے، اس طرح وفاقی جمہوریہ جرمنی ایک، متحد یورپ کے اندر اپنے کردار، خاص طور پر نازی سوشلسٹ دور میں زیادتیوں کے شکار افراد کے ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کا بھرپور اظہارکرتا ہے۔
تاہم برلن میں منعقد ہونے والے جرمن اسرائیل حکومتی مذاکرات کے بعد بھی ایک خلش سی باقی رہ جاتی ہے، کیونکہ جہاں جرمن حکومت یروشلم کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات پر خوشی مناتی ہے، وہاں وفاقی جرمن باشندوں کی طرف سے جرمنی کی اسرائیل کے ساتھ غیرمشروط یگانگت اور اشتراک پر زیادہ سے زیادہ سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی کے بارے میں مخالفت بڑھ رہی ہے اور اسے جرمن باشندے رد کر رہے ہیں۔
غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ سے جرمن عوام کی ایک بڑی تعداد متنفر ہو گئی ہے۔ یقیناً یہ موضوعات جرمن اسرائیل حکومتی مشاورت کے ایجنڈا میں شامل نہیں تھے۔ اس بار کے دو طرفہ حکومتی مذاکرات کے بعد جرمن چانسلر میرکل نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے دوران غزہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، نہ ہی مقبوضہ غرب اردن میں یہودی آبادکاری کا موضوع زیر بحث لانے کے قابل سمجھا گیا جبکہ یہودی آباد کاری، متنازعہ مشرق وسطیٰ میں میرکل کی حمایت والے دو ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ آخر میرکل اور نیتن یاہو، جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اور ان کے اسرائیلی ہم منصب لیبرمن اور اسرائیل اور جرمنی کے وزرائے دفاع نے کس بارے میں بات چیت کی؟۔
میرکل کے بقول ایران اوراس کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کے وجود کو لاحق خطرات، اسرائیل اور جرمنی کے مابین اقتصادی تعلقات میں بہتری اور دونوں ملکوں کے ماہرین اور محققین کے مابین قریبی تعلقات کے موضوعات پر بات چیت ہوئی اور اسرائیل کو جرمنی کی جانب سے اسلحے کی فراہمی کے بارے میں بھی؟۔ اسرائیل کے پاس پہلے ہی سے جدید ترین طرز کی پانج آبدوزیں موجود ہیں، جو اسے جرمنی نے دی ہیں۔ اسرائیل کے پاس موجود یہ سب سے مہنگا اسلحہ ہے۔ اب یوروشلم حکومت جرمنی سے ایک اور آبدوزہ اور اس کے ساتھ دو میزائیل بردار جہاز اور مزید چھوٹی آبدوزیں بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اگراسرائیل کی طرف سے ایران پر حملہ ہوتا ہے تو یہ اسلحہ جات بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ یا غزہ پٹی کے خلاف بحری محاصرے کی نگرانی کے لئے۔ حالانکہ جرمن قوانین کے مطابق بحران زدہ علاقوں میں جنگی اسلحوں کی برآمد کی ممانعت ہے، تاہم اسرائیل کے معاملے میں تمام قوانین ایک طرف رکھے جا سکتے ہیں۔
اس بارے میں نہ تو انسانی حقوق کوئی معنی رکھتے ہیں نہ ہی جنگی جرائم۔ محض ایک چیز اہمیت کی حامل ہے اور وہ ہے جرمنی اور اسرائیل کے مابین ناقابل خلاف ورزی دوستی۔ تاہم اسرائیل میں سرگرم امن کے علمبردار عناصر عالمی برادری سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے ضمن میں کھل کر بات کریں اور تنازعہء مشرق وسطیٰ کے پر امن حل کی با اثر کوششیں کریں، لیکن ان سرگرم عناصر کی آوازپر برلن منعقدہ اسرائیل، جرمن حکومتی مذاکرات میں کوئی کان نہیں دھرا گیا۔
رپورٹ : کشور مصطفیٰ
ادارت : عاطف توقیر