جرمن اسلام کانفرنس کے ایجنڈے پر مسلم برادری برہم
8 مئی 2013جرمن اسلام کانفرنس کے ایماء پر انتہا پسندی، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور سامی دشمنی سے بچاؤ کے لیے ایک پیش قدمی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہانس پیٹر فریڈرش نے کہا ہے کہ اس اقدام کا مقصد جرمنی کی جمہوری اقدار کو مضبوط تر بنانا ہے اور اسے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا دفاع نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ گزشتہ روز جرمن دارالحکومت برلن میں اسلام کانفرنس کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کا ایجنڈا انتہا پسندی، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور سامی دشمنی سے بچاؤ کے لیے اقدامات ہی تھا۔
برلن میں انتہائی سخت سکیورٹی اقدامات میں منعقد ہونے والی اسلام کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل مسلم انتہا پسندی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت جیسے موضوعات نے اجلاس کے آغاز سے پہلے ہی جرمنی کی مختلف مسلم تنظیموں کے نمائندوں میں نا پسندیدگی اور غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔ ترک مسلمانوں کی یونین DITIB کے سربراہ بکیر البوگا نے کانفرنس سے قبل ہی ایک انٹرویو میں کہا،’ اسلام کانفرنس کے ایجنڈا کو سلامتی کی صورتحال تک محدود کر دینا نہایت مایوس کُن امر ہے۔ یہ اس کانفرنس اور جرمنی میں آباد مسلم برادری کے وقار کو گرانے کے مترادف ہے۔ ہم مسلمان اس ملک میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے رہ رہے ہیں اور ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم جرمنی کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں‘۔
اسلام کانفرنس کا سلسلہ 2006ء میں اُس وقت کے وزیر داخلہ ووُلفگانگ شوئبلے کے ایماء پر شروع ہوا تھا۔ تاہم موجودہ وزیر داخلہ ہانس پیٹر فریڈرش نے ملکی سلامتی اور انتہا پسندی جیسے موضوعات کو اسلام کانفرنس کا مرکزی نقطہ بنا کر مسلمانوں کو ناراض کر دیا ہے جبکہ جرمنی میں آباد مسلمانوں کے نمائندوں کا ماننا ہے کہ اسلام کانفرنس کو ریاست اور مسلمانوں کے مابین مکالمت اور ان کے معاشرے میں انضمام کے فروغ کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اسلام کانفرنس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا موضوع کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہونا چاہیے۔
’عذرا کُکوک‘ ’نوجوانوں کی اسلام کانفرنس‘ کے پروجیکٹ کی سربراہ ہیں۔ وہ اسلام کانفرنس میں سلامتی امور کے موضوع کو ’آگ‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتی ہیں،’ان موضوعات کی اہمیت پورے معاشرے کے لیے ہے۔ انتہا پسندی کا تعلق محض مسلمانوں سے نہیں ہے نہ ہی اس موضوع کو صرف اور صرف مسلمانوں کے ضمن میں زیر بحث لایا جانا چاہیے بلکہ اسے پورے جرمن معاشرے کی سطح پر اہمیت دی جانی چاہیے‘۔
عذرا نے مسلم نوجوانوں کے گروپ کی طرف سے کرسچین سوشل یونین سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ ہانس پیٹر فریڈرش کومطالباتکی ایک فہرست پیش کی ہے۔ ان میں اہم ترین مطالبات یہ ہیں کہ اسلام کانفرنس سے ملکی سلامتی کے موضوع کو بالکل علیحدہ رکھا جائے اور اس کانفرنس کا جو بنیادی مقصد تھا اُس پر توجہ مرکوز کی جائے، جرمنی میں مسلم برادری کو مسیحی اور یہودی برادریوں کے مساوی حقوق اور درجہ دیا جائے اور اس طرح مسلمانوں کو بھی ان کے مذہبی تہواروں پر چھٹیاں دی جائیں اور سرکاری اسکولوں میں اسلامی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔
اسلام کانفرنس کے ذریعے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے سلسلے میں چند اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر متعدد مطالعاتی جائزے تیار کیے گئے ہیں اور کئی جرمن یونیورسٹیوں میں اماموں کا تربیتی کورس اور اسلامی الٰہیات کا شعبہ متعارف کروایا گیا ہے۔ اب آئندہ چار سالوں کے اندر مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور ان کی تعلیم و تربیت کے مواقع تمام صوبوں میں مساوی بنانے کا اہم کام ہونا ہے۔ جرمنی میں مذہب سے متعلق قوانین وفاقی نہیں بلکہ صوبائی سطح پر وضع کیے جاتے ہیں۔ اب تک جرمن صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک اور انہیں میسر مذہبی آزادی اور دیگر حقوق میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔
C.Naomi/J.Karin/km/aa