جرمن اسکول سسٹم میں مہاجر بچوں کے لیے انضمامی مسائل
1 مارچ 2018اُن بچوں اور نوجوانوں کو جنہیں اپنے والدین کے ساتھ یا اُن کے بغیر اپنا وطن چھوڑ ہجرت کرنا پڑی اور یہ عمل آسان نہ تھا۔ ان میں سے بہت سے بچوں نے مہینوں اور سالوں سے اسکولوں کی شکل نہیں دیکھی۔ یورپ کا طرز زندگی اُن کے لیے اجنبی ہے۔
سن 2015 سے جرمن اسکولوں نے ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب بچوں کو داخلہ دیا اور تعلیم سمیت کئی سہولتیں فراہم کیں۔ ان سروسز میں باقاعدہ اسباق کی تیاری، جرمن زبان سیکھنے کے کورسز اور انتہائی نگہداشت کا عمل شامل ہیں۔
تاہم مہاجرت اور انضمام کے امور کے ماہرین کی جرمن کونسل کی جانب سے کرائے گئے ایک حالیہ جائزے کے مطابق پناہ گزین بچوں کے لیے جرمن اسکول اور اساتذہ کی تعداد اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کے لیے ناکافی ہیں۔
مہاجر بچوں کے لیے ترتیب دیے گئے ایک پروگرام کے سربراہ اُلف ماٹیزیاک نے اس مطالعے کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے کہا،’’ ہمیں یقین نہیں کہ اس نظام میں بچوں کا جرمن معاشرے میں انضمام ہو سکے گا۔‘‘
'ٹیچ فرسٹ‘ نامی یہ تنظیم سماجی شعبے کے اہم پہلوؤں کی تربیت کے لیے اسکولوں کی اعانت کرتی ہے۔ اس پروگرام کے تحت مختلف مضامین میں گریجویٹ افراد کو دو سال کے لیے ان اسکولوں میں بھیجا جاتا ہے۔
جائزے کے لیے باڈن ووورٹمبرگ، ہیمبرگ، برلن، ہیسے اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے 56 اسکولوں کے طلبا سے اُن کے تجربات پوچھے گئے۔ ان مشاہدوں کی بنا پر یہ اخذ کیا گیا کہ مہاجر بچوں کی اسکولوں میں تقسیم اُن کے تعلیمی کیریئر کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہ مسئلہ عموماﹰ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک یا دو برس کی تیاری کے بعد یہ بچے باقاعدہ اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔
اُلف ماٹیزیاک کے مطابق وقت کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ماٹیزیاک کہتے ہیں کہ براہ راست بات چیت، والدین کے مشاغل، مسائل اور تربیت و نشونما کے پہلو، پناہ گزین بچوں کو تعلیم دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ جائزے کی رُو سے مختلف ثقافتی اور مذہبی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ان بچوں کو تعلیم دینے کے لے موزوں تربیت یافتہ اساتذہ کی بھی کمی ہے۔ اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ اگر جرمنی کا شعبہ تعلیم یہ چاہتا ہے کہ اسکولوں کی سطح پر سماجی انضمام موثر ہو تو اسے اس مسئلے پر ہر پہلو سے از سر نو غور کرنا ہو گا۔