جرمن الیکشن: مسرت، مایوسی، بے چینی
حالیہ جرمن الیکشن کے نتائج کو حیران کن اور شاندار قرار دیا گیا ہے۔۔ اس الیکشن کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے صدر دفاتر میں گہما گہمی اور نتائج کے وقت مسرت اور مایوسی کا اندازہ درج ذیل تصاویر سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایس پی ڈی کی شادمانی
برلن میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈکوارٹر وِلی برانٹ ہاؤس میں انتخابی نتائج کے اعلان پر بڑی گہما گہمی پیدا ہوئی۔ ابھی تک یہ پارٹی الیکشن میں پچیس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کامیابی کو پارٹی میں بہاریہ تبدیلی قرار دیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اگلے جرمن چانسلر کا تعلق ایس پی ڈی سے ہوتا ہے۔
شولس حکومت کے خواہاں
الیکشن کے نتائج سامنے آنے پر ایس پی ڈی کے چانسلر کے امیدوار اولاف شولس اس تاثر میں مبتلا ہیں کہ وہ اس منصب کے اہل ہیں۔ شولس کا کہنا ہے کہ لوگ تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں اور الیکشن کے نتائج سے ان کی یہ خواہش واضح ہے۔
سی ڈی یو میں افسوس کی کیفیت میں
الیکشن 2021 کے ابتدائی نتائج کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے لیے صدمے سے کم نہیں۔ سی ڈی یو اور اس کی حلیف کرسچین سوشل یونین کے لیے یہ نتائج انتہائی مایوس کن رہے۔ ان کے اشتراک کے بعد سے یہ سب سے خراب انتخابی نتیجہ تھا۔ ان دونوں پارٹیوں نے مشترکہ طور پر پچیس فیصد ووٹ حاصل کیے۔ سن 2017 کے مقابلے میں حاصل کردہ ووٹوں میں یہ کمی آٹھ فیصد کے قریب ہے۔
شکست سے دوچار امیدوار
کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے چانسلر کے امیدوار آرمین لاشیٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن میں پارٹی کی کمزور حیثیت نے ایک غیرمعمولی سیاسی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونین کے لیے ووٹ حقیقت میں بائیں بازو کی قیادت میں بننے والی ممکنہ وفاقی حکومت کے بھی خلاف ہے اور اس تناظر میں وہ حکومت تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
گرین پارٹی میں پرجوش ماحول
گرین پارٹی کے صدر دفتر میں سینئر سیاستدان ریناٹے کیوناسٹ بھی انتخابی نتائج کے بعد لوگوں کے ساتھ ہاتھ ہلاتی دکھائی دیں۔ پارٹی کے صدر دفتر میں ماحول دوست سیاستدانوں اور ان کے حامیوں میں بہت جوش پایا گیا۔ الیکشن میں گرین کو پندرہ فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملے ہیں۔ یہ اس پارٹی کو اب تک ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔ اس پارٹی کے بغیر مخلوط حکومت کی تشکیل قریب ناممکن ہو گی۔
ایف ڈی پی بھی خوش لیکن زیادہ نہیں
فری ڈیموکریٹک پارٹی نے انتخابی نتائج پر ملا جلا لیکن مسرت کا حامل تاثر دیا ہے۔ اس پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ بظاہر اس کے ووٹ کم و بیش سابقہ الیکشن کے مساوی ہیں۔ گرین پارٹی کی طرح ایف ڈی پی بھی حکومت سازی میں نہایت اہم ہے۔ یہ سی ڈی یو یا ایس پی ڈی کے ساتھ مخلوط حکومتی اتحاد کا حصہ بن سکتی ہے۔
لیفٹ پارٹی میں مایوسی
انتخابی نتائج سے لیفٹ پارٹی پر اداسی طاری ہے۔ پارٹی کی سربراہ سوزانے ہیننگ ویلزو کا کہنا ہے کہ نتیجہ پارٹی کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ پارٹی محض پانچ فیصد ووٹ حاصل کر سکی۔ جرمن پارلیمنٹ میں نشست کے لیے پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنا لازم ہوتا ہے۔
اے ایف ڈی کے لیے بھی مایوس کن نتیجہ
انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ کے نائب سربراہ بیٹرکس فون اشٹورخ نے انتخابی نتیجے کو مایوس کن قرار دیا۔ اس پارٹی کو گیارہ فیصد ووٹ ملے جو سابقہ الیکشن سے کم ہیں۔ سن 2017 میں اے ایف ڈی کو 12.6 فیصد ووٹ ملے تھے۔ سابقہ پارلیمان میں یہ تیسری بڑی سیاسی جماعت تھی۔ دوسری جانب پارٹی کی شریک لیڈر ٹینو شروپالا نے نتائج کو مستحکم خیال کیا ہے۔
اے ایف ڈی پارٹی کے خلاف احتجاج
انتخابی نتیجے کے اعلان کے بعد انتہائی دائیں بازو کی قدامت پسند سیاسی جماعٹ آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لانڈ کے خلاف لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔ پارٹی کی قیادت جہاں اپنے کارکنوں کے ساتھ کھڑی تھی وہاں باہر لوگ احتجاجی بینرز لیے کھڑے تھے، ایک بینر پر لکھا تھا کہ ’فاشسٹوں کی کوئی سیاسی جماعت نہیں‘۔
پولنگ میں تاخیر
جرمن دارالحکومت میں لوگوں کے جذبات کی وجہ سے افراتفری بھی دیکھی گئی۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر لوگ آخری وقت پر بھی ووٹ ڈالنے کے منتظر تھے۔ بیلٹ پیپرز کی کمیابی بھی دیکھی گئی۔ اس کے علاوہ برلن میراتھن کی وجہ سے بھی سڑکیں بند تھیں اور لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچنے میں دقت کا سامنا کرنا پرا۔ بعض ووٹرز کو ایک گھنٹے سے زائد ووٹ ڈالنے کی خاطر قطار میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا۔