جرمن امریکا تعلقات میں اُتار چڑھاؤ
14 جولائی 2014یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ان دو ممالک کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی جا رہی ہے بلکہ ماضی میں بھی ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا جرمنی کے لیے ایک مددگار کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ اُس وقت جرمنی کی معاشی، ثقافتی اور اخلاقی حالت بری تھی، اُس کو مدد کی ضرورت تھی اور وہ اُسے امریکا سے ملی۔ اُس وقت امریکا نے جرمنی کے استحکام کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایا، جس کے تحت بارہ ارب ڈالر سے زائد کی مدد فراہم کی گئی۔ اس طرح امریکا ایک قابض ملک سے ایک دوست ملک بن گیا۔
بڑا بھائی امریکا
اس کے بعد جرمن امریکا تعلقات میں مزید پُختگی اس وقت آئی، جب مغربی برلن کا محاصرہ شروع ہوا اور زمینی راستے سے اَشیائے خوراک کا لے جانا ممکن نہ رہا تو اِنہی امریکی طیاروں کے ذریعے کھانے پینے کی اَشیاء پہنچائی جانے لگیں۔ تب ان طیاروں کو ’روزینن بومبر‘ یعنی مٹھائیاں پھینکنے والے بمبار کہا جانے لگا۔ امریکی اسکولوں کے طلبہ چھوٹے چھوٹے پیراشُوٹ بناتے تھے، جن میں چاکلیٹ اور دیگر مٹھائیاں رکھ کر شہر پر پھینکی جاتی تھیں۔
اس عملی مدد کے علاوہ اُس وقت امریکا نے جرمنی کی سیاسی مدد بھی کی۔ دیوار برلن کی تعمیر کے دو سال بعد امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے برلن کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے یہ مشہور فقرہ بولا تھا کہ ’’اش بن آئن برلِنر‘‘ یعنی ’’میرا تعلق برلِن سے ہے۔‘‘ اس کے علاوہ پچاس کی دہائی میں امریکا نے ’راک اینڈ رول‘ موسیقی جرمنی میں متعارف کروائی، جو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی۔
ویتنام کی خوفناک جنگ
اس کے بعد ساٹھ کی دہائی کے آغاز اور ستّر کی دہائی کے شروع میں جرمن امریکا تعلقات کی نوعیت میں فرق آیا۔ جب پہلی ویتنام جنگ سے متعلق رپورٹیں شائع ہوئیں تو جرمنی بھر میں امریکا مخالف مظاہرے ہوئے۔ سب سے زیادہ عوامی غم و غصے میں اضافہ اُس وقت ہوا، جب امریکی بموں سے ہونے والی تباہی کو دکھایا گیا۔ ریگن بُرگ یونیورسٹی میں امریکی اسٹڈیز کے پروفیسر اوڈو ہیبل کہتے ہیں کہ ویتنام جنگ کی وجہ سے جرمن نوجوان امریکا مخالف ہو گئے تھے۔
طاقتور پارٹنر کا خوف
کئی دیگر عوامل کے علاوہ سن 1979ء میں نیٹو کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت امریکی میزائل اور کروز میزائلوں کی ایک نئی کھیپ کی تعیناتی سے بھی امریکا مخالف جذبات میں اضافہ ہوا۔ پروفیسر اوڈو ہیبل کے مطابق اس سے امریکا کا تشخص ایک سامراجی اور مادی ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ اس کے علاوہ زیادہ تر جرمنوں کے دل میں یہ خوف بیٹھ چکا تھا کہ امریکا حد سے زیادہ طاقتور ہو جائے گا۔
دوبارہ امریکا اور جرمنی ایک دوسرے کے اُس وقت قریب آئے، جب سن 2001ء میں القاعدہ نے امریکا پر حملے کیے۔ اس وقت کی جرمن حکومت نے امریکا سے ’لامحدود یکجہتی‘ کا وعدہ کیا۔ اس کے ایک ماہ بعد ہی جرمنی امریکا کے افغانستان میں شروع کیے گئے فوجی آپریشن کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد دوبارہ ان تعلقات کی گرمجوشی اس وقت کم ہو گئی، جب جرمن چانسلر گیرہارڈ شرؤڈر نے افغانستان کے برعکس عراق میں امریکا کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔
اتار چڑھاؤ مسلسل ہے
پروفیسر اوڈو ہیبل کے مطابق جرمن حکومت اور امریکا کے مابین جاسوسی سے متعلق موجودہ تنازعہ انتہائی سنگین ہے۔ جرمنی نے دارالحکومت برلن میں امریکی خفیہ ایجنسی کے سب سے اعلیٰ عہدیدار کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے اور ایسا پہلے کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ لیکن ساتھ ہی ہیبل یہ امید بھی ظاہر کی کہ موجودہ تنازعہ امریکا اور جرمنی کے مابین تعلقات کو طویل المدتی بنیادیوں پر نقصان نہیں پہنچائے گا۔