جرمن انتخابات پر ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
23 ستمبر 2013انگیلا میرکل کی جماعت کرسچیئن ڈیمو کریٹک یونین بیالیس فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد پارلیمان کی سب سے مضبوط جماعت بن کر سامنے آئی ہے لیکن اس کی اتحادی لبرل جماعت (ایف ڈی پی) ان انتخابات میں ناکام ہو گئی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ جرمن چانسلر کی جماعت آئندہ چار برسوں تک اکیلے ہی یا پھر سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ ملک کر حکومت کرے گی۔ انگیلا میرکل کی شہرت سے نہ صرف انہیں بلکہ ان کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔ ان کی جماعت گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑی انتخابی فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ لیکن انہی انتخابات کے نتائج نے انگیلا میرکل کی اتحادی جماعت ایف ڈی پی کو تاریخی ناکامی سے دوچار کیا ہے۔ چار برس قبل 14 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی فری ڈیموکریٹک پارٹی پانچ فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کرنے کے باعث پارلیمان سے باہر ہو گئی ہے۔ یہ اس پارٹی کی اب تک کی بدترین شکست ہے اور اس کے ساتھ ہی جرمنی کے سیاسی منظر نامے نے ایک حقیقی موڑ لیا ہے۔ ایف ڈی پی سن 1949ء کے بعد سے لے کر گزشتہ حکومت تک جرمن پارلیمان کا حصہ رہی ہے۔
میرکل کی سیاست قابل غور
اتحادی حکومت کی کامیابی کو انگیلا میرکل کی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یورپ کے مقابلے میں جرمنی میں بے روزگاری کی شرح سب سے کم ہے۔ اقتصادی ترقی ٹھوس ہونے کے ساتھ ساتھ قرضوں کا حجم بھی کم ہے اور یہ سب کچھ جرمن حکومت نے اپنے عوام کو کسی مشکل میں ڈالے بغیر حاصل کیا ہے۔ رائے دہندگان بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔ جرمن عوام پالیسیوں میں تسلسل، استحکام اور سلامتی چاہتے ہیں اور انگیلا میرکل نے یہ کر دکھایا ہے۔ آٹھ برس بعد بھی میرکل غیرمعمولی طور پر ایک طاقتور سیاستدان ہیں۔ میرکل نے تقریباﹰ تمام اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی موضوعات کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ میرکل کا یہی اصول ہے اور یہ کامیاب بھی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے نظام میں تبدیلی
جرمنی میں سیاسی منظر نامہ تبدیلیوں کا شکار ہے۔ سیاسی جماعتوں میں پایا جانے والا ربط ختم ہوتا جارہا ہے۔ ملک کی دوسری بڑی جماعت ایس پی ڈی اور پارلیمان سے باہر جانے والی جماعت ایف ڈی پی انتخابی نتائج سے غیر مطمئن ہیں۔ ایس پی ڈی صرف 26 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے اور یہ ان کی امیدوں سے بہت کم ووٹ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے نعرے اور موضوعات جزوی طور پر انگیلا میرکل کے موضوعات بن چکے ہیں۔ دوسری جانب گرین پارٹی اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ جرمنی کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یورو مخالف جماعت ’اے ایف ڈی‘ بھی ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
کئی اہم سوال جواب کے منتظر
یورپی یونین کے کئی ممالک انتخابی نتائج کو بحرانی صورت حال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جرمنی کے کئی ہمسایہ ملکوں کے خیال میں اگر جرمنی میں کوئی بڑا اتحاد حکومت میں آتا تو ان کو مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے اعتدال پسند اور نرم شرائط کا سامنا کرنا پڑتا۔ دوسری جانب انہی انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت ہے جسے جرمنی کے مستقبل سے جڑے کئی اہم فیصلوں کے جواب دینا ہوں گے۔ بوڑھے ہوتے ہوئے جرمنوں کے لیے پینشن کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا ؟ کس طرح توانائی کے انقلاب کے لیے فنڈز مہیا کیے جائیں گے؟ شام کے تنازعے میں جرمنی کہاں کھڑا ہے؟ اور وسیع ہوتی ہوئی یورپی یونیں سے متعلق جرمنی کا سیاسی نقطہء نظر کیا ہے؟ یورپی یونین کے معاملے میں جرمنی کو اب زیادہ کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔