1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن خواتین میں ’سٹریس‘ مردوں سے زیادہ

گنٹر برکن سٹوک / امجد علی4 نومبر 2013

جرمنی میں کیے جانے والے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ جرمنی میں خاص طور پر خواتین ’سٹریس‘ کا شکار ہیں۔ مرد حضرات میں یہ شرح کچھ کم ہے۔ اس سروے میں جرمنی بھر سے ایک ہزار مرد و زن کی رائے لی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1ABOn
جرمنی میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ذہنی دباؤ کا زیادہ سامنا رہتا ہے
جرمنی میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ذہنی دباؤ کا زیادہ سامنا رہتا ہےتصویر: Fotolia/Yuri Arcurs

اس سروے کے مطابق جرمنی میں 63 فیصد خواتین کو کام کی زیادتی کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا سامنا ہے۔ مردوں کی شرح تقریباً دَس فیصد کم ہے لیکن اتنی شرح بھی ایک طرح سے زیادہ ہی ہے۔ اس دباؤ کی سب سے بڑی وجہ پیشہ ورانہ زندگی کے تقاضے ہیں لیکن دوسری بڑی وجہ خود ہی خود پر حد سے زیادہ دباؤ ڈالنا ہے۔ سروے سے یہ بھی پتہ چلا کہ جنوبی جرمنی میں لوگوں کو ’سٹریس‘ کا زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ شمالی جرمنی کے لوگ قدرے سکون میں ہیں۔

جرمنی میں خواتین کے مقابلے میں ’سٹریس‘ کے شکار مردوں کی تعداد صرف دَس فیصد ہی کم ہے
جرمنی میں خواتین کے مقابلے میں ’سٹریس‘ کے شکار مردوں کی تعداد صرف دَس فیصد ہی کم ہےتصویر: Fotolia/Joerg Lantelme

’سٹریس‘ کوئی بیماری نہیں ہے

جرمن شہر ڈورٹمنڈ کے ایک خصوصی ہسپتال کے نفسیاتی امراض کے سینئر ڈاکٹر ہنس یوآخم تھیم کے مطابق ’سٹریس، برن آؤٹ اور ڈپریشن آج کل کے بڑے موضوعات ہیں‘۔ وہ کہتے ہیں کہ مختلف کمپنیوں میں نفسیاتی عوارض میں اتنے بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے کہ کمپنیاں اُس پر رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ مزید یہ کہ یہی حال انشورنس کمپنیوں کا بھی ہے، جہاں اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر تھیم کا کہنا تھا کہ ’سٹریس‘ یا ذہنی دباؤ بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اگر انسان کو مسلسل ذہنی دباؤ کا سامنا رہے تو اُس کی نفسیاتی حالت اور جسم کے سارے حصوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں لوگ دل کی بیماریوں یا پھر معدے کے السر کے ساتھ ساتھ ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈپریشن میں مبتلا افراد کی تعداد سب سے زیادہ بڑھ رہی ہے:’’ہمارے تیس فیصد مریض ڈپریشن کا شکار ہیں۔‘‘

ڈاکٹر تھیم کے مطابق بہت سے لوگ اپنی ڈپریشن کو ’برن آؤٹ‘ کا نام دینا زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے یہ لگتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی کمپنی کے لیے خود کو ہلکان کر ڈالا ہے تاہم وہ اپنے مریضوں کی بہت احتیاط کے ساتھ تشخیص کرتے ہیں کیونکہ برن آؤٹ کے مریضوں کا علاج ڈپریشن کے علاج سے مختلف ہوتا ہے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان سو فیصد کی بجائے 80 فیصد پر ہی مطمئن ہو جایا کرے اور کچھ وقت ایسا ضرور رکھے، جس میں اُس پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان سو فیصد کی بجائے 80 فیصد پر ہی مطمئن ہو جایا کرے اور کچھ وقت ایسا ضرور رکھے، جس میں اُس پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہوتصویر: Fotolia/The Photos

برن آؤٹ فیشن ہی سہی لیکن حقیقت بھی ہے

ڈاکٹر تھیم کے لیے یہ بات باعث تعجب نہیں ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں ’سٹریس‘ کا شکار ہونے کی زیادہ شکایت کرتی ہیں۔ اُن کے مطابق جرمن خواتین کو بدستور کنبے اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دہرے دباؤ کا سامنا رہتا ہے، اُنہیں مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں ملتی ہیں اور اُنہیں ترقی کرنے کے بھی کم مواقع میسر آتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ خواتین اکثر اپنی مشکلات کی وجہ خود اپنے آپ میں تلاش کرتی ہیں جبکہ مرد زیادہ دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔

ڈاکٹر تھیم کے مطابق ’برن آؤٹ‘ بھی درحقیقت موجود ہے اور آج کل کی تیز رفتار زندگی میں لوگوں کے ’برن آؤٹ‘ کا شکار ہونے کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ ان کے مطابق اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان سو فیصد کی بجائے 80 فیصد پر ہی مطمئن ہو جایا کرے، سارے کام خود نہ کرے بلکہ بانٹ دیا کرے اور اپنی کامیابیوں کا جشن منائے اور خوش رہا کرے۔