جرمن دارلحکومت برلن میں احمدیوں کی مسجد کا افتتاح
21 اکتوبر 2008جرمن دارلحکومت برلن میں اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر سخت سیکورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ اس افتتاحی تقریب میں کم ازکم تین سو افراد نے شرکت کی جس میں برلن کے مئیر بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ سن دو ہزار چھ میں جب اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی گئی تھی تو مقامی باشندوں اور جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی NPD نے سخت اجتجاج کیا تھا۔ اور یہ احتجاج اس مسجد کے افتتاح تک جاری رہا۔
اس مسجد کی تعمیر پر ایک اعشاریہ چھ ملین یوروز کی لاگت آئی ہے۔ اس مسجد کے مرکزی مینار انتالیس فٹ بلند ہیں اور اس میں قریبا پانچ سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کے اندر سیمنار ہال اور ایک لائیبریری بھی ہے۔ مسجد کی انتظامیہ نے کہا ہےکہ اس مسجد میں میں بین المذاہبی مذاکرات کے علاوہ کئی طرح کے پروگرام کرائے جا سکیں گے۔
ویسے تو یورپی ممالک میں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے مابین ہم آہنگی اور مکالمت کے لئے مختلف طریقے رائج ہیں۔ جنمیں ریاستی سطح پر مکالمت کے علاوہ غیر سرکاری اداروں کی سطح تک کوشش کی جاتی ہے کہ غلط فہمیوں اوربے جا خوف اور ڈر کو دور کیا جائے۔
یورپی ممالک میں اگر ہم صرف جرمنی کی ہی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تقریبا تین اعشاریہ پانچ ملین مسلمان آباد ہیں۔ اس وقت جرمنی بھر میں ایک سو انسٹھ مساجد ہیں۔ واضح رہے کہ سن انیس سو نورے میں یہاں صرف تین مساجد تھیں۔ اوراب تو جرمنی کے شہرکولون میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد بنانے کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں بالخصوص جرمنی میں مسلمانوں کی ایک کثیرتعداد کی بدولت یہاں نہ صرف باقاعدہ ایک منظم طریقے سے ہم آہنگی اور مکالمت کا سلسلہ جاری ہے بلکہ لاشعوری طور پر بھی ایک مکالمت جاری ہے کیونکہ روزمرہ زندگی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے ملاپ سے کئی غلط فہمیاں دورہوتی ہیں۔