جرمن دفاعی برآمدات اور پاکستان
31 اکتوبر 2008جرمنی میں وفاقی حکومت کے خلاف یہ الزام کوئی بار بار سنائی دینے والا دعویٰ نہیں ہے کہ حکومت جنگی سازوسامان کی برآمد کے سلسلے میں اپنے ہی طے کردہ ضابطوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہور ہی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کے حالیہ دورہ پاکستان کے بعد بون میں روائتی ہتھیاروں کے خاتمے کے بین الاقوامی مرکز BICC کے چند ماہرین نے یہ دعوے کئے کہ برلن حکومت کے ہتھیاروں کی برآمدات سے متعلق فیصلے شفاف نہیں ہیں۔ اس دعوے کے حق میں مثال یہ دی گئی کہ جرمنی پاکستان کو آبدوزیں فروخت کرنا چاہتا ہے حالانکہ اس اقدام سے جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے مابین اسلحہ بندی کی دوڑ کم ہونے کی بجائے زیادہ ہو جائے گی۔
ان دعووں کے بعد جرمن ذرائع ابلاغ میں ایک باقاعدہ بحث شروع ہو گئی کہ آیا حکومت ہتھیاروں کی برآمد سے متعلق اپنے ہی طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کررہی ہے اور یہ کہ کیا عنقریب ہی پاکستان کو جرمن آبدوزیں مہیا کردی جائیں گی۔ اس سلسلے میں برلن کی مخلوط حکومت میں شامل جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی دفاعی امور سے متعلق سیاست کے ترجمان اور پارلیمانی رکن Rolf Mützenich نے جرمن ٹیلی ویژن پر اپنے ایک انٹرویو میں ایسے کسی ممکنہ معاہدے کے مناسب ہونے کے حوالے سے کہا کہ ایسا کوئی بھی اقدام بہت ذمے دارانہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ مہینوں کے دوران انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے تو کئی مرتبہ اس امر کی طرف توجہ بھی دلائی ہے کہ جنوبی ایشیا میں دراصل اسلحہ بندی پر کنٹرول کا عمل شروع ہونا چاہیے۔
جرمن حکومت کی اسلحہ کی برآمدات کی منظوری سے متعلق مبینہ طور پر غیر شفاف سیاست ہی کے بارے میں ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی کے دفاعی امور کے ترجمان اور وفاقی پارلیمان کے رکن ونفریڈ ناخت وائی نے کہا کہ پاکستان کو جرمن آبدوزیں اس لئے فراہم نہیں کی جانا چاہیئں کہ جنوبی ایشیا کا پورا خطہ پہلے ہی اسلحہ بندی کی دوڑ کا شکار ہے۔ جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق برلن حکومت پاکستان کو یہ آبدوزیں مہیا کرنے کی سوچ پر عمل درآمد فی الحال روک چکی ہے۔ گرینز پارٹی کے رکن پارلیمان ونفریڈ ناخت وائی کے بقول پاکستان کا نظام ایسا ہے کہ وہاں فوج واضح طور پر ناقابل بھروسہ ہے۔
اسی موضوع پر جمعہ کے روز برلن میں جرمن وزارت اقتصادیات کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو جرمن آبدوزوں کی ممکنہ برآمد کے موضوع پر گذشتہ کافی عرصے سے کوئی نئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی اور آئندہ اگر ایسی کوئی درخواست دی گئی تو جرمن حکومت اس بارے میں اپنا کوئی بھی فیصلہ حسب معمول پارلیمان اور ریاست کی سطح پر آئینی اداروں کے ذریعے ہی کرے گی۔