جرمن ریاست مساجد کی نگرانی کرے، ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا
30 اپریل 2016جرمنی میں نئے نامزد ہونے والے کسی بھی بشپ کے لیے یہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے متعلقہ صوبے کے وزیر اعلیٰ سے اس کی سرکاری رہائش گاہ پر جا کر ملے۔ وہاں جب وہ آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے تو اس نے اپنا بایاں ہاتھ انجیل پر رکھا ہوتا ہے۔
اس کے برعکس کسی وزیر اعلیٰ کو اپنے انتخاب کے بعد کسی بشپ کے پاس جا کر اپنے عقیدے کا ثبوت پیش نہیں کرنا پڑتا کیونکہ کلیسا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ وزیر اعلیٰ کیا مانتے ہیں یا نہیں مانتے۔
اس کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ جرمنی میں ریاست اور مذہب کے درمیان صدیوں سے چلی آ رہی جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ فیصلہ ریاست کے حق میں ہوا ہے۔ یہ چیز جدید مغربی مسیحی دنیا کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔
دوسری طرف یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ ریاست اور مذہب کو بالکل ہی ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ جرمنی میں دونوں ایک دوسرے سے بہت قریبی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ ہاں، ریاست کلیساؤں کو کنٹرول ضرور کرتی ہے اور کسی بشپ کی نامزدگی پر اعتراض بھی کر سکتی ہے۔
فولکر کاؤڈر کی تجویز کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ تجویز اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی نہیں ہے۔ ظاہر ہے، ریاست کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ امام مساجد میں کن باتوں کی تبلیغ کرتے ہیں۔
ریاست توقع رکھتی ہے کہ مساجد میں لوگوں کو جرمن آئین اور قانون کے خلاف اکسایا نہیں جائے گا۔ مذہبی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے، جہاں لوگ مذہب کو ناجائز طور پر ریاست کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔
اگر جرمن چانسلر انگیلا میرکل یہ کہتی ہیں کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے تو پھر حقوق اور فرائض کا جو نظام کلیساؤں کے سلسلے میں رائج ہے، وہی مساجد کے سلسلے میں بھی رائج کیا جانا چاہیے۔
مسئلہ ایک ایسے ادارے کی غیر موجودگی کا ہے، جس کے ساتھ ریاست سارے معاملات طے کر سکے۔ اس مسئلے کے حل ہونے تک اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ انفرادی طور پر مختلف مساجد کی نگرانی کی جائے۔ کاؤڈر کی تجویز مذہبی آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتی۔
اس تجویز میں کسی مذہب کے پیروکاروں کو نہیں بلکہ ان کی عبادتوں کی سربراہی کرنے والوں کو قاعدے قانون کے اندر لانے کی بات کی گئی ہے، خواہ وہ پادری ہوں، امام ہوں یا بھر ربی۔