جرمن شہر کیمنٹز میں یہودی ریستوران پر حملے کی تفتیش کا آغاز
8 ستمبر 2018معتبر جرمن اخبار ڈی ویلٹ اَم زونٹاگ نے رپورٹ کیا ہے کہ جرمن تفتیشی حکام نے مشرقی جرمن شہر کیمنِٹس میں واقع ایک یہودی ریسٹورنٹ پر حملے کی رپورٹس کے تناظر میں تفتیشی عمل شروع کر دیا ہے۔ یہ حملہ ستائیس اگست کو کیا گیا تھا۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ ریسٹورنٹ پر حملے میں نیونازی ملوث ہو سکتے ہیں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ کی ستائیس تاریخ کو درجن بھر نقاب پوشوں نے اس یہودی ریستوران پر دھاوا بولا اور اندر داخل ہو کر وہاں موجود افراد کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ جرمنی سے نکل جائیں۔ حملہ آوروں نے ریسٹورنٹ پر پتھر اور خالی بوتلیں بھی پھینکیں۔ اس حملے سے ریسٹورنٹ کے سامنے کے حصے کو نقصان پہنچا اور ایک کھڑکی کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اس حملے میں ریسٹورنٹ کے مالک اُووی زیوبیلا کو کندھے پر پتھر لگنے سے چوٹیں بھی آئیں۔
جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے اخبار کو بتایا ہے کہ اِس حملے کے حوالے سے تفتیشی عمل جاری ہے۔ ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ حملہ سیاسی نوعیت کا جرم ہے اور حملے میں سامیت دشمنی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ جرمنی کے سامیت دشمنی کے انسداد کے لیے مقرر کمشنر فیلکس کلائن نے پولیس اور دفتر استغاثہ کو اس حملے کی مکمل چھان بین کی ہدایت کی ہے۔
کمشنر فیلکس کلائن نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ اپنے تفتیشی عمل کو جلد از جلد منطقی انجام تک لاتے ہوئے ملوث افراد کو عدالتی کٹہرے میں کھڑا کریں تا کہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی مکمل کی جا سکے۔
کلائن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ حملہ سامیت دشمنی سے تعلق رکھتا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ جرمنی میں سامیت دشمنی ایک نئی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ سن 1930 کی دہائی کے افسوس ناک اور تلخ واقعات کی یاد دلاتا ہے۔
کیمنِٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ دونوں مشتبہ ملزمان حراست میں لے جا چکے ہیں۔ اس قتل کی واردات کا تیسرا مبینہ ملزم ابھی مفرور ہے۔ ان مظاہروں کے دوران مظاہرین نے پولیس اور صحافیوں پر حملے بھی کیے۔
نتالی ایلکس میولر (عابد حسین)