جرمن صدر ترکی میں :مذہبی آزادی کے فروغ کی کوششیں
18 اکتوبر 2010جرمن صدر نے 3 اکتوبر کو منقسم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر مسیحیت اور یہودییت کے بعد اب اسلام کو بھی اپنے ملک کا ایک اہم حصہ قرار دیا تھا۔ جرمن صدر کے اُن بیانات کی جہاں جرمنی میں آباد مسلم برادری اور اپوزیشن لیڈروں کی جانب سے پذیرائی ہوئی تھی وہاں جرمنی کے قدامت پسند مسیحی حلقوں کی طرف سے وولف پر کڑی تنقید بھی کی گئی۔ تاہم جرمن صدر مسلم اکثریت والی سیکیولر ریاست ترکی کے دورے پر کوشش کریں گ کہ وہاں آباد تقریباً 1 لاکھ مسیحی باشندوں کو ان کی بھرپورمذہبی آزادی حاصل ہو۔
پیر کے روز انقرہ میں جرمن صدر اپنے ترک ہم منصب عبداللہ گُل اور ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ منگل کو جرمن صدر ترکی کی نیشنل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ کسی جرمن سربراہ مملکت کا پہلی بار ترک قومی اسمبلی سے خطاب ہو گا۔
کرسٹیان وولف سے پہلے اُن کے پیش رو ہارسٹ کوہلر نے بھی ترکی کے دورے کا پلان بنایا تھا اور وولف کے اس دورے کو جرمنی صدر کے معمول کے متعدد دوروں میں سے ایک سمجھا جا سکتا تھا تاہم اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ جرمنی میں کئی ہفتوں سے تارکین وطن کے انضمام کا موضوع گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس بحث کا مرکزی نقطہ دراصل ترک تاریکن وطن اور ترک نژاد جرمن ہیں۔
ایک طرف تو جرمنی کے کرسچن قدامت پسند حلقوں میں قومی شناخت کے بحران اور تارکین وطن کے انضمام کے موضوع کو ایک دوسرے کے ساتھ نتھی کر کہ اس پر نہایت سنجیدہ بحث کی جا رہی ہے دوسری جانب جرمنی کو ایک کثیرالثقافتی جمہوریہ بنانے کے خواہشمند جرمن صدر کرسٹیان وولف ترکی جا رہے ہیں۔ ان کے ایک جملے ’ اب اسلام بھی جرمنی کا حصہ بن گیا ہے‘ کے عوض انہیں اپنے ہی سیاسی حلقوں کی طرف سے کڑی مذمت کا سامنا کرنا پڑا تاہم اُن کے ترک ہم منصب عبداللہ گُل نے نہ صرف وولف کے بیانات کا خیرمقدم کیا بلکہ انہیں اپنی مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا۔ عبداللہ گُل میزبانی کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے ڈیڑھ دن تک جرمن صدر کے ساتھ ترکی کے مختلف مقامات کا دورہ کریں گے۔ جرمن صدر گُل کے آبائی شہر قیصری بھی جائیں گے۔
جرمن صدر کے ترکی کے اس دورے کا ایک اہم مقصد اُن کی طرف سے مذہبی رواداری کا بھرپور اظہار ہے۔ کرسٹیان وولف جہاں استنبول کی مشہور زمانہ ’ بلیو مسجد‘ جائیں گے وہاں وہ ترکی کے مسیحی تاریخی ورثوں کے حامل مقامات کا دورہ بھی کریں گے۔
ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالفت مسیحیت کے غلبے والے دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ جرمنی کے کرسچیئن سیاسی حلقے کھُل کر کرتے ہیں۔ اس کی جگہ استنبول کو یورپی اتحاد کے ایک مراعت یافتہ ساتھی کی حیثیت سے قبول کرنے کے لئے یہ سب تیار ہیں۔ تاہم کرسٹیان وولف بظاہر ترکی پر یورپی یونین کے دروازے بند رکھنے کے حامی نہیں ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عابد حسین