1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فلسفی اور مفکر ہابرماس کے لیے ہائنے انعام

17 دسمبر 2012

جرمنی کا معروف ہائنے انعام حاصل کرنے والے يُرگن ہابر ماس عصر حاضر کے مشہور ترين فلسفيوں ميں شمار ہوتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/173vl
تصویر: picture-alliance/dpa

معروف فلسفی اور ماہر سماجيات يُرگن ہابر ماس کو جرمنی کے صف اول کے دانشوروں اور مفکرين ميں شمار کيا جاتا ہے۔ وہ مختلف موضوعات پر اظہار خيالات کرتے رہتے ہيں جن ميں مذہب، جينياتی تکنيک اور نقل مکانی يا ترک وطن بھی شامل ہيں۔

يہ تمام موضوعات ايک جديد معاشرے کے ليے اہميت رکھتے ہيں۔ ہابر ماس کے مطابق ايک جديد معاشرے ميں پر امن زندگی کے ليے ’تبديلی‘ بہت ضروری ہے۔

يُرگن ہابرماس کی زندگی اُسی قدر متنوع ہے جتنے کہ اُن کے خيالات اور معاشرے پر اُن کے اثرات ہيں۔ 83 سالہ ہابر ماس 1929 ميں شہر ڈسلڈورف ميں پيدا ہوئے تھے۔ انہوں نے گوئٹنگن، سوئٹزر لينڈ کے شہر زيورچ اور بون ميں فلسفے، نفسيات، اقتصاديات اور جرمن لسانيات کی تعليم حاصل کی۔ تعليم سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے صحافی کی حيثيت سے کام کيا۔ 1956ء ميں انہوں نے فرينکفرٹ ميں سماجی تحقيق کے انسٹيٹيوٹ ميں ريسرچ اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت شروع کی۔

ہابر ماس ايک تنقيدی نظر رکھنے والے فلسفی اور دانشور ہيں ليکن ان کے خيالات کبھی بھی علمی تحريروں ميں چھپے نہيں رہے۔ انہوں نے جرمنی کے ماضی کے بارے ميں عوامی طرز فکر کو تنقيد کا نشانہ بنايا۔ انہیں اسی سال 14 دسمبر کو ڈسلڈورف کا ہائنے انعام ديا گيا۔ يہ انہيں ملنے والا کوئی پہلا انعام يا اعزاز نہيں ہے۔ جيوری نے انہيں دنيا بھر ميں عصر حاضر کا اہم ترين جرمن مفکر قرار ديا۔

فلسفی يُرگن ہابرماس ڈوسلڈورف ميں ہائنے انعام وصول کرنے کے بعد تقرير کرتے ہوئے
فلسفی يُرگن ہابرماس ڈوسلڈورف ميں ہائنے انعام وصول کرنے کے بعد تقرير کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

ہابر ماس کے نظريات کو ان کی جوانی کے زمانے ہی ميں شہرت ملی اور دنيا بھر ميں ان پر بحث کی گئی۔ فلسفيوں اور مفکرين نے ان پر غور و فکر کيا۔ تھيوڈور آدمو، ماکس ہورک ہائمر اور ہربرٹ مارکوس نے معاشرے ميں سرمايہ دارانہ اثرات کا تجزيہ کيا اور علوم پر اس کے اثرات کا جائزہ ليا۔ ہابر ماس کے نظريات ميں معاشرتی ڈھانچوں کی تبديليوں، فرد کی آزادی اور اُس کے افق ميں اضافے کو خاص اہميت حاصل ہے۔

يُرگن ہابر ماس کا عوامی معاشرتی بحثوں پر آج بھی گہرا اثر ہے۔ انہوں نے 2003ء ميں عراق پر امريکا کی فوجی چڑھائی پر شديد تنقيد کی تھی اور کہا تھا کہ اقتصاديات معاشرے کو مسلسل زيادہ تقسيم کر رہی ہے۔

اپنے سياسی مضامين کی وجہ سے ہابر ماس آج جرمنی اور دنيا کے معروف ترين فلسفيوں ميں شمار کيے جاتے ہيں۔ وہ معاشرے کا تجزيہ کرتے، جمود پا جانے والے ڈھانچوں کو توڑتے اور مستقبل کے حوالے سے دعوت فکر ديتے ہيں۔ ان کے مطابق ايک معاشرہ بے عيب نہيں بن سکتا ليکن اہم يہ ہے کہ وہ ترقی کرتا رہے اور اچھی تبديلياں آتی رہيں۔

A. Grade, sas / K. Prevezanos, mm