جرمن فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نئی اصلاحات سے غیر مطمئن
29 جنوری 2014جرمن فوج کے ایک اعلی افسر ہیلموٹ کونجہاؤس نے برلن میں ایک رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ فوجی برداشت کی حد کو پہنچ چکے ہیں اور یہ صورتحال فوجیوں کی کارکردگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بعد ازاں ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے بتایا کہ فوج میں کی جانے والی حالیہ اصلاحات پر بہت زیادہ شکایتیں موصول ہوئی ہیں۔ ان کے بقول 2013ء کے دوران تقریباً پانچ ہزار شکایتیں درج کرائی گئی ہیں، جو 2012ء سے بیس فیصد زیادہ ہیں۔ ’’ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی جرمن فوجیوں کے پاس کسی آپریشن کے لیے بہترین ساز و سامان ہے اور کیا فوج ایک پر کشش آجر ادارہ ہے۔‘‘
ہیلموٹ کونجہاؤس نے مزید کہا کہ فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کا مؤقف ہے کہ بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ’’ فوجیوں کے مطابق اصلاحات نے بنیادی ڈھانچے اور انتظامیہ کو کمزور کر دیا ہے۔ محکمہ دفاع نے آرمی کو انتہائی پیشہ ور اور کارگر بنانے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کے لیے فوجی اہلکاروں کی تعداد میں کمی کی جائے گی۔ اس فیصلے کے مطابق اس ادارے میں ڈھائی لاکھ افراد ملازم ہوں گے، جن میں فوجیوں کی تعداد صرف ایک لاکھ 80 ہزار ہو گی۔ اس کے علاوہ 2017ء تک 31 فوجی تنصیبات کو بند کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی محکمہ دفاع کے ملازمین کی تعداد کو بھی تین ہزار سے کم کر کے دو ہزار کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دفاعی ساز و سامان میں بھی کمی کی جائے گی۔
فوجی افسر ہیلموٹ کونجہاؤس کے مطابق کچھ اہلکاروں نے فوج میں خواتین کی موجودگی پر بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ انہوں نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس جنسی طور پر ہراساں کرنے کی 64 شکایات درج کرائی گئی ہیں۔ 2012ء میں اس طرح کے واقعات کی تعداد 50 تھی۔
ہیلموٹ کونجہاؤس نے کہا بڑی تعداد میں شکایات کے باوجود فوج کے کچھ شعبوں میں بہتری آئی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے خاص طور پر افغانستان کا ذکر کیا۔ ان کے بقول افغانستان میں تعینات جرمن فوجیوں کے انتظامات کو اب بہتر انداز میں سنبھالا جا رہا ہے۔