جرمن فیوچر پرائز 2016ء: نئی ایجادات
2016ء کی بہترین ایجاد کا جرمن فیوچر پرائز کاربن کنکریٹ نے جیتا ہے، جس کا مقابلہ ایک کم خرچ انجن اور لیزر لائٹس سے تھا۔
جرمن فیوچر پرائز کی ٹرافی
جرمن فیوچر پرائز 1997ء سے ہر سال تین ٹیموں کو اُن کی شاندار ایجادات کی بناء پر اس انعام کے لیے نامزد کرتا ہے۔ تیس نومبر کو ان میں سے ایک ہی ٹیم کو یہ ٹرافی اور اس کے ساتھ ڈھائی لاکھ یورو مالیت کے انعام سے نوازا گیا۔ یہ وہ ٹیم ہے، جس نے کاربن کے غلاف والا کنکریٹ تیار کیا ہے۔
ٹیم نمبر ایک فاتح ٹھہری: ہائی ٹیک لُوم
اور یوں بنتا ہے کاربن کے غلاف والا یہ کنکریٹ: اس تصویر میں دھاگا بُنا جا رہا ہے لیکن یہ کوئی عام دھاگا نہیں ہے۔ یہ کاربن کے دھاگے ہیں، جنہیں آگے چل کر تعمیرات کو مضبوط بنانے کا کام انجام دینا ہے۔ اس ایجاد کا سہرا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے سر ہے اور یہ ایجاد ٹیکسٹائل مشینوں اور زیادہ استعداد والے ٹیکسٹائل مادوں کے انسٹیٹیوٹ میں تیار ہوئی ہے۔
سرخ روشنی میں طاقتور ہوتے کاربن دھاگے
کاربن کے دھاگے عمارتوں کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال ہونے والے روایتی فولادی غلاف کے مقابلے میں زیادہ لچکدار ہوتے ہیں۔ اس تصویر میں ان دھاگوں کو سرخ روشنی میں خشک کیا اور پکایا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں انتہائی مضبوط غلافی مادہ تیار ہوتا ہے۔
دھاگوں کے رول
کاربن کے یہ مادے خصوصی صلاحیتوں کے حامل دھاگوں کی مختلف اَقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کسی عمارت پر آگے چل کر پڑنے والے وزن کی مناسبت سے انجینئر ایسے غلاف تیار کر سکتے ہیں، جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔
پتلی دیواریں
اس نئے کاربن غلاف کی مدد سے بنی ہوئی کنکریٹ کی دیواریں اتنی مضبوط ہیں کہ اُن کے لیے چند سینٹی میٹر کی موٹائی ہی کافی ہے۔ اس طرح انتہائی ہلکے اور نازک تعمیراتی منصوبوں کو بھی عمل شکل دی جا سکتی ہے۔ اِس کاربن کنکریٹ کو فرنیچر، جیسے کہ میزوں اور بینچوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سائز کا موازنہ دیکھیے
اس تصویر میں بائیں جانب فولاد والا کنکریٹ ہے جبکہ دائیں جانب کاربن کنکریٹ ہے اور دونوں ایک جتنے مضبوط ہیں۔ کاربن کنکریٹ کا ایک فائدہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کسی وجہ سے عمارت میں پانی آ جائے تو کاربن کو زنگ نہیں لگے گا اور وہ اپنی مضبوطی بھی برقرار رکھے گا۔ ایسے میں پُلوں اور دیگر تعمیرات کی عمر زیادہ طویل ہو گی۔
اور یہ خوبصورت بھی ہے
کون کہتا ہے کہ کنکریٹ بدصورت ہوتا ہے؟ کاربن کنکریٹ کے ہوتے ہوئے کئی ماہرینِ تعمیرات کو تعمیر میں استعمال ہونے ولے اصل مادے کے اوپر دھاتی پلیٹیں لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ بروٹل ازم (فرانسیسی لفظ بیٹون بروٹ سے ماخوذ) نامی اُس جدید طرزِ تعمیر کی طرف لوٹ سکیں گے، جس میں کسی عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والے اصل مادے کو چھپایا نہیں جاتا۔
ٹیم نمبر دو: انجن کے سلنڈر کے لیے نینو ذرّات
یہ ہے وہ خصوصی جَیٹ نوزل، جس کی مدد سے کسی گاڑی کے انجن کے سلنڈر کی اندرونی سطح پر نینو یعنی انتہائی چھوٹے سائز کے ذرات کی کوٹنگ کی جاتی ہے۔ نینو ذرات کی حامل سطح پر ایسے متعدد مائیکرواسکوپک مسام بن جاتے ہیں، جہاں موبل آئل جیسے مائعات ذخیرہ ہو جاتے ہیں اور انہی کی وجہ سے انجن تقریباً کسی رگڑ کے بغیر کام کر سکتا ہے۔
بھاپ سے نکلنے والے نینو ذرّات
انجن کے سلنڈر کے اندر لوہے اور کاربن الائے سے بنی دو تاروں کے ذریعے روشنی پیدا کی جاتی ہے۔ وہاں نائٹروجن گیس کی مدد سے دھات کے ننھے منے قطرے بھاپ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران دھات پر نینو ذرّات کی ایک انتہائی باریک تہ جم جاتی ہے۔
صاف ستھرا حل
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سلنڈر کی بالائی سطح کس قدر ہموار ہے۔ رگڑ اتنی کم ہوتی ہے کہ آج کل کے روایتی انجن میں تین فیصد تک ایندھن کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اس طرح آئندہ انجن کو ہلکا اور چھوٹا بنایا جا سکے گا کیونکہ کئی اضافی چیزوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ٹیم نمبر تین: اندھیرے کے لیے بہتر روشنی
بی ایم ڈبلیو اور اوسرام کے محققین نے کاروں کے لیے ایک نئی روشنی ایجاد کی ہے۔ اُنہوں نے لیزر کو روشنی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اس لیزر سے نیلی روشنی نکلتی ہے جبکہ منظر کو اچھی طرح سے دیکھنے کے لیے خوبصورت سفید روشنی درکار ہوتی ہے۔
روشنی کا رنگ نیلے سے سفید میں بدل جاتا ہے
خاص طرح کی سیرامکس کی مدد سے نیلی روشنی کے ایک حصے کو پیلی روشنی میں بدل دیا جاتا ہے۔ پھر نیلی اور پیلی روشنی کے کچھ حصے آپس میں مل کر ایک بالکل سفید روشنی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
آنکھیں نہ چُندھیائیں
ایک پیچیدہ الیکٹرانک طریقے سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کار کی روشنیوں سے سامنے سے آنے والی یا آگے آگے چلنے والی کاروں کے ڈرائیوروں کی آنکھیں نہیں چُندھیاتیں۔ پیدل چلنے والوں اور ہرنوں وغیرہ کی آنکھیں بہرحال چُندھیا جاتی ہیں۔
دُور تک جاتی روشنی
یہ ہے کاروں کے لیے بنائی گئی نئی روشنی، جو چھ سو میٹر دور تک جاتی ہے اور جسے اس تصویر میں آج کل سڑکوں پر چلنے والی ایک کار میں نصب دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ روشنی جرمن فیوچر پرائز تو نہیں جیت سکی لیکن یہ جیتنے والی ٹیم کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ٹیمیں بھی اپنی شاندار ایجادات پر خراجِ تحسین کی مستحق ہیں۔