جرمن ٹرین ڈرائیوروں کی ’طویل ترین‘ ہڑتال
4 مئی 2015جرمن ٹرین ڈرائیوروں کی ٹریڈ یونین (جی ڈی ایل) اور جرمنی کی سب سے بڑی ریلوے کمپنی (ڈوئچے باہن) کے نمائندوں کے مابین تنخواہوں میں اضافے کے معاملے پر ایک عرصے سے تنازعہ جاری ہے لیکن اب یہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ٹریڈ یونین GDL نے ایک ہفتے تک جرمن ٹرینوں کی آمد و رفت کو معطل کر دینے کا اعلان کیا تھا اور آج پیر کے دن سے مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے سے مال بردار گاڑیوں کے انجن ڈرائیوروں کی ہڑتال شروع ہو گئی ہے جبکہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات دو بجے سے لے کر آئندہ اتوار کی صبح تک مسافر ٹرینیں بھی بند رہیں گی۔ اس کے باوجود کہ ڈوئچے باہن ہنگامی بنیادوں پر ٹرینوں کے شیڈول کی تیاری پر کام کر رہی ہے، ہزاروں مسافروں کو اپنی ٹکٹیں منسوخ کرنا پڑیں گی۔
گزشتہ کئی ماہ سے جاری اس تنازعے میں ریلوے انجن ڈرائیوروں کی یہ آٹھویں ہڑتال ہے۔ اتوار کی شام انجن ڈرائیوروں کی ٹریڈ یونین جی ڈی ایل کا ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ایک مرتبہ پھر ڈوئچے باہن اپنے ٹرین ڈرائیوروں اور دیگر عملے کو کام کے بہتر حالات کے لیے جنگ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔‘‘
گزشتہ جمعرات کو Deutsche Bahn نے ڈرائیوروں کو تنخواہوں سے متعلق ایک نئے معاہدے کی پیش کش کی تھی، جسے جی ڈی ایل نے فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے دوبارہ ہڑتال کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس جرمن ریلوے کمپنی نے پیش کش کی تھی کہ یکم مئی سے دو مرحلوں میں تنخواہوں میں مجموعی طور پر 4,7 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ جون کے مہینے میں ریلوے ملازمین کو اضافی طور پر ایک ہزار یورو (تقریباﹰ ایک لاکھ بارہ ہزار روپے) ادا کرنے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔
دوسری جانب جی ڈی ایل کا مطالبہ ہے کہ ریلوے ملازمین کی تنخواہوں میں ایک ساتھ پانچ فیصد اضافہ کیا جائے اور ہفتہ وار بنیادوں پر کام کے اوقات میں ایک گھنٹے کی کمی بھی کی جائے۔
وفاقی وزیر برائے ٹرانسپورٹ الیکسانڈر ڈوبرِنٹ نے اس ہڑتال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے، ’’میں اس چیز کو سمجھ سکتا ہوں کہ جرمن شہری اس ہڑتال کی وجہ سے پریشان ہیں۔‘‘ اسی دوران وفاقی وزیر اقتصادیات اور نائب چانسلر زیگمار گابریئل نے کہا ہے، ’’باہر والوں کے لیے یہ ہڑتال ناقابل فہم ہے۔ فریقن کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہڑتال کے نتیجے میں جو نقصان ہوگا، کیا اس سے مذاکرات کے ذریعے بچا جا سکتا تھا۔ ہمیں جرمنی کو مفلوج کرنے کے بجائے سنجیدگی سے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘