جرمن پارلیمان: آرمینیائی باشندوں کا قتلِ عام ’نسل کُشی‘ ہے
2 جون 2016جمعرات کو وفاقی پارلیمان میں اس بارے میں ہونے والی بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی اور آخر کار اس علامتی قرارداد کو اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا، جس میں پہلی عالمی جنگ کے دوران 1915ء میں سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کے ہاتھوں 1.5 ملین آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو ’نسل کُشی‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ قرار داد ایک ایسے وقت میں منظور ہوئی ہے جب انقرہ اور برلن حکومت کے مابین یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران، ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کے حصول کی کوششوں اور دیگر متعدد سیاسی اور سماجی امور پر غیر معمولی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
ترکی ہمیشہ سے اس امر کی تردید کرتا رہا ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینیائی باشندوں کا قتل عام ’نسل کُشی‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی AKP کے ایک ترجمان نے اپنے ایک بیان میں فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،’’اس سے دونوں ممالک کے تعلقات کو سنگین نقصان پہنچا ہے۔‘‘
دریں اثناء ترکی کے وزیر اعظم نے جرمن پارلیمان میں منظور ہونے والی قرارداد کو’’نامعقول‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قرار داد نیٹو پارٹنرز اور ترکی کی دوستی کا امتحان ہوگا۔
اُدھر یہ پارلیمانی فیصلہ خود جرمن چانسلر میرکل کے لیے بھی بہت موافق وقت پر نہیں ہوا ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے ساتھ مہاجرین کے بحران سے متعلق ایک نہایت اہم اور مشکل معاہدہ طے پانے کا سہرا بھی جرمن چانسلر میرکل کے سر ہی ہے۔ رواں برس مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترکی غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ کا رخ کرنے سے روکنے میں تعاون کر رہا ہے۔ اس کے بدلے ترک شہریوں کے لیے مالی معاونت، یورپ کا ویزہ فری سفر کرنے کی اجارت اور یورپی یونین میں ترکی کو ممبر شپ دینے کے بارے میں مذاکرات میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ سب کچھ تو جرمنی اور ترکی کے مابین تعلقات کو خوشگوار بنانے کی نشاندہی لگ رہی تھی تاہم چانسلر میرکل اپنی پارلیمان میں مذکورہ علامتی قرارداد کی منظوری رکوانے سے قاصر نظر آئیں۔ یہ قرارداد ماحول پسند گرین پارٹی کے ایماء پر پارلیمان میں پیش کی گئی تھی جس کی حمایت خود میرکل کے قدامت پسند بلاک اور سوشل ڈیموکریٹس نے کر دی۔
پارلیمان میں رائے شماری میں قرارداد کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے اسپیکر نوربرٹ لامرٹ نے کہا کہ صرف ایک رکن نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جبکہ ایک نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔ اس قرار داد کی حساسیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمان میں اس پر ہونے والی ووٹنگ میں نہ تو جرمن چانسل، نہ ہی اُن کے نائب چانسلر اور نہ ہی جرمنی کے وزیر خارجہ نے حصہ لیا تاہم میرکل نے رواں ہفتے اپنی پارٹی کے ایک نجی سروے میں اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔
واضح رہے کہ اب تک ترکی میں برسرِاقتدار آنے والی تمام حکومتیں اس قتلِ عام کے لیے ’نسل کُشی‘ کی اصطلاح کے استعمال کو سختی کے ساتھ رَد کرتی رہی ہیں۔