میرکل، اوباما،صدارتی تمغہ،لیبیا، سلامتی کونسل،Merkel, Obama, USA
7 جون 2011طلائی میڈل میں جڑا ہوا پانچ کونے والا ستارہ، نیلے ربن کے گلو بند کے ساتھ جس وقت صدر اوباما جرمن چانسلر میرکل کے گلے میں ڈالیں گے، اُس وقت وہاں میرکل کے شوہر اور اُن کی کابینہ کے پانچ وزراء بھی موجود ہوں گے۔ صدر اوباما نے امریکہ کا یہ اعلیٰ ترین شہری اعزاز، جسے صدارتی تمغہ آزادی کہتے ہیں، میرکل سمیت متعدد نامور شخصیات کو عطا کیا ہے۔ یہ اعزاز ان افراد کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے امریکہ کے لیے یا پھرعالمی امن کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دی ہوں۔ اس بار اس کا حقدار میرکل کے علاوہ سابق امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بُش کو بھی قرار دیا گیا۔
جرمن چانسلر اس اعزاز کو بڑی قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ برلن میں چانسلر دفتر کی طرف سے اس امر کو بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے کہ امریکی حکام نے جرمن وفد کا استقبال مکمل پروٹو کول کے ساتھ ریاستی مہمان کی حیثیت سے کیا ہے، جبکہ جرمن چانسلر حکومتی سربراہ تو ہیں لیکن ریاستی سربراہ نہیں ہیں۔
آج چانسلر میرکل کا باقاعدہ استقبال فوجی اعزاز کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں 250 مہمانان خصوصی کی موجودگی میں جرمن چانسلر کو امریکی فوجی توپوں کی سلامی دیں گے۔ امریکہ کا یہ وہ رویہ ہے، جس کی متمنی جرمن سفارتکاری جتنی ان دنوں نظرآرہی ہے، اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لیبیا کے خلاف پیش کی جانے والی قرار داد پر جرمنی نے جس طرح اپنا حق رائے دہی محفوظ رکھنے کا اعلان کیا تھا، اُسےامریکہ نے سخت نا پسند کیا تھا۔ اُدھر فرانس اور برطانیہ نے امریکی موقف کی حمایت کرتے ہوئے عالمی سفارتی اور سیاسی بساط پر بڑی تیزی سے مُہرے آگے بڑھائے اور پس و پیش کرنے والا یورپی ملک جرمنی کافی حد تک تنہا نظر آنے لگا تھا۔ تاہم امریکی حکومت نے جرمنی کی طرف سے اس تنازعہ کے حل کے پیش کی جانے والی تجاویزکی تعریف کی تھی۔
لیبیا کے معاملے میں امریکہ اور جرمنی کے مابین اختلافات سامنے آنے سے پہلے بھی دوطرفہ تعلقات کچھ خاص متحرک نظر نہیں آ رہے تھے۔ باراک اوباما کو امریکی صدارتی عہدے پر فائز ہوئے ڈھائی سال ہو گئے تاہم انہوں نے اب تک برلن کا رُخ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ صدر اوباما حال ہی میں یورپ کے کئی روزہ دورے پر تھے تاہم جرمنی کے لیے یہ امر مایوسی کا باعث بنا کہ اوباما جرمن شہر ڈریسڈن اور باڈن باڈن کو تقریباً چھوتے ہوئے گزر گئے لیکن انہوں نے ان شہروں کا دورہ کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔
انگیلا میرکل اپنے دورہ امریکہ کے دوران یقیناً اوباما کو جلد جرمنی آنے کی دعوت دیں گی۔ میرکل کی بھرپور کوشش ہے کہ اس امریکی دورے کے دوران وہ دو دنوں کے اندر اوباما کے ساتھ اُن تمام اہم امور پر تفصیلی بات چیت کر لیں جو، دونوں ممالک کے لیے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، یعنی یورو اور توانائی کا بحران، یورپ اور امریکہ کے مابین اقتصادی اشتراک عمل کے علاوہ عرب دنیا، مشرق وسطیٰ اور افغانستان کی صورتحال جیسے موضوعات ان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ وفاقی جرمن کابینہ کے پانچ وزراء ان بین الحکومتی مذاکرات میں شامل نائب امریکی صدر جو بائڈن، وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور دیگر امریکی وزراء کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے اور ظاہر ہے کہ جرمنی کی طرف سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے حصول کی دیرینہ خواہش پر بہت زیادہ زور دیا جائے گا۔
دریں اثناء برلن میں اپوزیشن جماعت ایس پی ڈی کی طرف سے میرکل حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اُس نے ماورائے اوقیانوس تعلقات کو نظر انداز کیا ہے۔ ایس پی ڈی کے خارجہ پالیسی کے سیاستدان رالف میوٹسینش کے بقول ’صدر اوباما نے امریکی صدارتی اعزاز ایک ایسے پارٹنر کو دیا ہے، جس کے ساتھ مضبوط تعلقات کی خواہش تو امریکہ ضرور رکھتا ہے تاہم اس وقت یہ تعلقات صحیح طور سے استوار نہیں ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا اشارہ جرمنی کی طرف سے لیبیا کے بارے میں سلامتی کونسل کی ووٹنگ میں خاموشی اختیار کرنے کی طرف ہے، جس کے بعد جرمن امریکی تعلقات کی مضبوطی ایک سوال بن کر رہ گئی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی