1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر اور دیگر سیاستدانوں کو بلیڈ اور پاوڈر بھرے خطوط

22 ستمبر 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور کئی دیگر سیاستدانوں کو ریزر بلیڈ اور مشتبہ پاؤڈور سے بھرے خطوط بھیجے گئے ہیں۔ عربی زبان میں غلطیوں کی باعث شک ہے کہ یہ جرمنی کی کسی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے بھیجے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2kWiz
Deutschland wählt DW Interview mit Angela Merkel
تصویر: DW

جرمن پولیس ان خطوط کے حوالے سے تحقیق کر رہی ہے، جو ملک کے متعدد اعلیٰ سیاستدانوں کو بھیجے گئے ہیں۔ عربی زبان میں لکھے گئے یہ خطوط ریزر بلیڈز، مشتبہ سفید پاؤڈور اور دھمکیوں پر مشتمل ہیں۔

پولیس کے مطابق یہ خطوط بدھ اور جمعرات کو مختلف سیاستدانوں کے گھروں میں بھیجے گئے تھے۔ ایک خط گرین پارٹی کے رکن پارلیمان ہنس کرسٹیان شٹروئبلے کو بھی موصول ہوا ہے اور انہوں نے اس خط کی ایک تصویر بھی ٹوئٹر پر پوسٹ کی ہے۔

ایک دوسرا خط جرمن چانسلر کے شوہر یوآخم زاؤر کو ان کے نجی گھر پر بھیجا گیا ہے۔ اسی طرح جرمن صوبے بائرن میں میرکل کی اتحادی جماعت کرسچن سوشل یونین کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر اور گرین پارٹی کی سب سے اعلیٰ امیدوار کیٹرین گوئرنگ ایکارٹ کو بھی اسی طرح کا ایک ایک خط موصول ہوا ہے۔

جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق مشتبہ خطوط سوشل ڈیموکریٹ (ایس پی ڈی کی) وزیر برائے انضمام آیدان اوزگیوز اور لیفٹ پارٹی کےگریگور گیزی کو بھی موصول ہوئے ہیں۔

گیزی کا جرمن ٹیلی وژن ڈبلیو ڈی آر سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مشتبہ طور پر یہ دھمکی آمیز خطوط ہیں لیکن میں اس بارے میں فکرمند ہوں کہ بھیجنے والے کو سیاستدانوں کے نجی گھروں کے ایڈریس کیسے ملے؟ ‘‘

پولیس کے مطابق خطوط کے ساتھ بھیجا گیا سفید پاؤڈر ’’ہلاکت خیز‘‘ نہیں ہے۔ جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کا نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ پاؤڈر خطرناک نہیں ہے۔‘‘

ان خطوط کے آخر میں ’جرمن سلفی ایسوسی ایشن‘ لکھا گیا ہے لیکن عربی میں لکھے گئے ان خطوط میں بہت سے غلطیاں ہیں۔ ان خطوط کا جائزہ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کسی ایسے شخص نے لکھے ہیں، جس کی مادری زبان عربی نہیں ہے۔ جرمن سیاستدان کرسٹیان شٹروئبلے کا کہنا تھا، ’’عربی زبان کے باوجود اس بات کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ یہ کسی جرمن انتہا پسند گروپ نے لکھے ہیں۔‘‘ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق ملکی سکیورٹی ایجنسیاں اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔