جرمنی: ماہرین اور کارکنان کا ماحولیات کے لیے فنڈ کا مطالبہ
14 ستمبر 2022ماہرین اقتصادیات، سائنس دان اور ماحولیات کے لیے مہم چلانے والے کارکنان 13ستمبر منگل کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں جمع ہوئے اور انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے فنڈ کے لیے حکومت سے 100 ارب ڈالر کی رقم مختص کرنے کا مطالبہ کیا۔
جرمن انسٹیٹیوٹ فار اکنومک ریسرچ کے صدر مارسیل فراٹچیر کا کہنا ہے کہ چونکہ جرمنی شمسی اور ہوا کی توانائی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لیے اس رقم کی جزوی طور پر شدید ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مناسب فنڈنگ کے سبب ملک کو اس فوسل ایندھن کی درآمدات پر کم انحصار کرنا پڑتا، جس کی وجہ سے اب ملک میں توانائی کی قلت کا سامنا ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا،’’ان غلطیوں کو اب درست کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کیا دریا اور جھیلیں خشک سالی کے اثرات سے نکل پائیں گے؟
'فرائیڈے فار فیوچر یوتھ موومنٹ' جو کہ اگلے ہفتے ہونے والے عالمی ماحولیاتی احتجاج کو مربوط کرنے میں مدد کر رہی ہے، نے بھی اس خیال کی حمایت کی ہے۔
اس تنظیم کی ممتاز رکن لوزیا نیوباؤر کا کہنا تھا کہ برلن بھی واشنگٹن سے کچھ سبق حاصل کر سکتا ہے، جہاں حال ہی میں صدر جو بائیڈن نے آنے والی دہائی میں موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کے لیے وفاقی سرمایہ کاری میں 375 ارب ڈالر کی رقم مختص کرنے کے ایک بل پر دستخط کیے ہیں۔
مہنگائی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی اضافی آمدن معاون ہو سکتی ہے
مارسیل فراٹچیر نے تجویز پیش کی کہ جرمن حکومت کو مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے، جو اضافی ٹیکس کی آمدنی ہو رہی ہے، اس سے اس کی فنڈنگ ممکن ہے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رواں برس کی پہلی ہی ششماہی میں حکومت کے خزانے میں تقریبا 29 ارب یورو کا اضافہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔
یورپ میں پانی کا بحران، خشک سالی سے دریا بھی خشک ہونے لگے
برلن یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈ سائنسز فار انجینیئرنگ اینڈ اکنومکس میں آب و ہوا سے متعلق ممتاز سائنسدان والکر کواشنگ نے کہا ہے کہ یہ خیال ایک اچھی شروعات ہو سکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ جرمنی کو کم کاربن والی معیشت میں تبدیل کرنے اور ملک کو گلوبل وارمنگ کے اثرات سے بچانے کے لیے 100 ارب ڈالر کی رقم اس کے لیے درکار کل رقم کا صرف ایک ہی حصہ ہے۔
ماحولیات سے جنگ تک، دنیا ایک نازک دور میں داخل: سپری
ان کا مزید کہنا تھا کہ رقم کا کچھ حصہ ان ترقی پذیر ممالک کو بھی فراہم کرنا پڑے گا، جن کے وسائل کا مغرب نے استحصال کیا ہے اور اب انہیں اپنی معیشتوں اور انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لائق بنانے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے پاکستان میں حالیہ سیلاب کی طرف اشارہ کیا۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)