جرمنی اور سعودی عرب ’’عسکری ساتھی کے لیے اسلحے کی برآمدات‘‘
6 دسمبر 2018یمن میں اکثر اچانک کیے جانے والے فضائی حملے تباہی اور ہلاکتوں کا سبب بنتے ہیں۔ اسکول کے بچوں سے بھری بسوں کو نشانہ بنا دیا جاتا ہے، شادیوں کی محفلیں سوگوار تقریب میں بدل جاتی ہیں، یمن میں آج کل ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یمن میں تقریباً روزانہ بے گناہ شہری ایسی کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن کا کوئی عسکری جواز موجود نہیں ہے۔
ریاض جرمن اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار
رواں برس جنوری سے ستمبر تک جرمنی کی جانب سے سعودی عرب کو 416 ملین یورو سے زائد کی مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کی اجازت دی گئی۔ اس طرح الجزائر کے بعد سعودی عرب جرمن اسلحہ خریدنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔ اکتوبر میں برلن حکومت نے سعودی عرب کو مزید 254 میلن یورو اسلحہ فراہم کرنے کا گرین سگنل دیا۔
اس موقع پر جرمنی کی بنی ہوئی عسکری کشتیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ ڈوئچے ویلے کے مطابق ایسی سات جنگی کشتیاں پہلے ہی سعودی عرب کے حوالے کی جا چکی ہیں۔ یہ چالیس میٹر لمبی ہیں اور ان پر اسلحہ بھی نصب ہے۔
ماکس مچلر نامی ایک ماہر کے مطابق ان عسکری کشتیوں کو سمندری ناکہ بندی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، ’’ان کے ذریعے کسی بحری جنگی جہاز کو تباہ نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے ذریعے راستوں کی نگرانی کی جائے گی۔‘‘
کیا جرمنی یمن میں ہونے والی ان ہلاکتوں کا شریک ذمہ دار ہے؟ کیا سعودی عرب کو دی جانے والی کشتیاں سمندری ناکہ بندی میں کردار ادا کر رہی ہیں؟ اور کیا جرمنی سے برآمد کیا جانے والے اسلحہ کا یمنی جنگ میں مارے جانے والے ساٹھ ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکتوں میں کوئی کردار ہے؟
جرمنی کی مخلوط حکومت نے رواں برس کے آغاز میں فیصلہ کیا تھا کہ یمن کی جنگ میں ملوث کسی بھی فریق کو اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔