جرمنی اور یونان مہاجر خاندانوں کا ملاپ سست کرنے پر آمادہ
30 مئی 2017یونان میں بہت سے ایسے مہاجر موجود ہیں، جن کے خاندان کا کوئی فرد یا باقی گھرانہ جرمنی میں آباد ہو چکا ہے، تاہم دونوں ممالک اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ ان خاندانوں کو آپس میں ملانے کا عمل سست کر دیا جائے۔
ایک اخبار میں یونانی وزیر برائے مہاجرت کو وہ وہ خط شائع کر دیا گیا ہے، جو انہوں نے جرمن وزیرداخلہ تھوماس ڈے میزئیر کو تحریر کیا تھا، تاہم یہ مراسلہ لیک ہو گیا۔ پیر کے روز یہ خط افیمیریدا تون سینتاکتون نامی اخبار میں شائع کیا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق چار مئی کو تحریر کیے گئے اس خط میں یونانی وزیر برائے مہاجرت نے ڈے میزیئر کو لکھا تھا، ’’جیسا کہ طے ہوا تھا، فیملی یونیفیکیشن ٹرانسفر کے تحت مہاجرین کی جرمنی منتقلی سست کر دی گئی ہے۔‘‘
یونانی وزارت برائے مہاجرت نے اس خبر یا خط کے مندرجات پر تبصرہ کرنے سے احتراز کیا ہے، تاہم اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز پر یونانی وزیر برائے مہاجرت ژیانس موزالس نے ایک بیان میں کہا تھاکہ سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے ’تکینکی مشکلات‘ کی بنا پر مہاجر خاندانوں کے انضمام کے عمل کو سست بنایا جا رہا ہے۔
اس خط میں موزالس نے تسلیم کیا کہ سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اس اقدام کی وجہ سے ’دو ہزار سے زائد افراد‘ متاثر ہوں گے، جن میں سے بعض کو، درخواست منظور ہو جانے کے باوجود اپنے خاندان کا جا ملنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
یونان میں بہت سے ایسے شامی مہاجرین موجود ہیں، جن کے خاندان کے دیگر افراد جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر ممالک میں موجود ہیں جب کہ ضوابط کے مطابق ایسی صورت میں دی جانے والی فیملی یونیفیکشن کے حوالے سے درخواست کی منظوری کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر انہیں ان کے خاندان سے ملایا جاتا ہے۔
اس خط میں موزالس نے برلن حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایتھنز حکومت پر ہونے والی تنقید کے سدباب مشترکہ راہ اپنائی جائے، تاکہ اس کا الزام ایتھنز حکومت پر نہ آئے۔
اس خط میں تجویز کیا گیا ہے کہ مشترک راہ اس جواب کی صورت میں ہو سکتی ہے، ’’کیوں کہ یونان اور جرمنی میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کی بڑی تعداد موجود ہے، اس لیے یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ مہاجرین اپنے خاندانوں سے جا ملنے کے لیے بے تاب ہیں، تاہم اس حوالے سے تاخیر کو ٹالا نہیں نہیں جا سکتا۔‘‘