جرمنی: برلن میں انتہائی بائیں بازو کے رہنماؤں کا امن مظاہرہ
4 اکتوبر 2024جرمن دارالحکومت برلن میں جمعرات کے روز ہزاروں مظاہرین یوکرین کی جنگ سے متعلق جرمن حکومت کے موقف کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔
مشرقی اور مغربی جرمنی کے یوم اتحاد کے موقع پر اس امن مارچ کا اہتمام "نیور اگین وار" یعنی 'جنگ اب کبھی دوبارہ نہیں' کے بینر تلے کیا گیا تھا، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔
اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد روکی نہیں جائے گی، جرمن حکومت
سن 1990 میں مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی اور مشرقی حصے پر مشتمل کمیونسٹ نظام حکومت والی جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک ریاستیں دوبارہ متحد ہوگئی تھیں اور اسی اتحاد کی یاد میں تین اکتوبر کو سالانہ تعطیل ہوتی ہے۔
مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر جنگ کے بجائے سفارت کاری کا مطالبہ کیا گیا اور یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
کچھ مظاہرین نے غزہ کی پٹی میں لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا اور اسرائیلیجنگ کی مخالفت کی۔
منتظمین نے کہا کہ ریلی میں "40,000 سے زیادہ افراد" نے شرکت کی، جب کہ پولیس نے درست تخمینہ پیش کرنے سے انکار کیا تاہم کہا کہ مظاہرین کی تعداد "پانچ اعداد کی حد کے اندر تھی۔"
برلن کی پولیس نے جمعرات کی شام کو بتایا کہ اس دن ہونے والے متعدد مظاہرے اور احتجاج "بغیر کسی رکاوٹ کے اختتام پذیر ہو گئے"، جس میں کسی بڑے واقعے، بدامنی یا گرفتاریوں کی اطلاع نہیں ہے۔
صرف فوجی طریقہ غزہ کی جنگ کا کوئی حل نہیں، جرمن وزیر خارجہ
پوٹن کے ساتھ بات چیت اور جرمنی میں مزید امریکی میزائل نہیں کا مطالبہ
جرمن سیاست کی نمایاں شخصیات نے اس امن مارچ کے اختتام پر وہاں جمع ہونے والوں سے خطاب کیا۔
اس میں سرفہرست ساحرہ ویگنکنچٹ تھیں، جو حال ہی میں مشرقی جرمنی میں ایک اہم رہنما بن کر ابھری ہیں۔ انہوں نے یوکرین میں لڑائی کے خاتمے کے لیے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے بات چیت کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ "مجھے یہ بہت پریشان کن لگتی ہے، جب لوگ ہر بار اپنے عظیم اخلاق کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ آپ اخلاقی وجوہات کی بنا پر پوٹن سے بات نہیں کر سکتے۔"
انہوں نے برلن حکومت پر واشنگٹن کی اندھی تقلید کرنے کا الزام بھی لگایا۔
ان کا کہنا تھا، "ہم ایک بار پھر درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے امریکی میزائلوں کی جرمنی میں تعینات ہونے کے دہانے پر ہیں۔ میرے خدا، یہ پاگل پن ہے۔ ہمیں اس سمت میں مزید نہیں جانا چاہیے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت خطرناک ہے۔"
فرانس، جرمنی اور برطانیہ کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
وہ جرمنی میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے امریکی میزائلوں کو نصب کرنے کے منصوبوں کے حوالے سے بات کر رہی تھیں، جس فیصلے کا چانسلر اولاف شولس نے دفاع کیا ہے۔
یوکرین اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا مطالبہ
نیور اگین وار تحریک کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جرمنی یوکرین اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی تمام برآمدات روک دے اور یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں لڑائی کے خاتمے کے لیے کام کرے۔
یہ گروپ یوکرین اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کو مسترد کرتا ہے اور جرمنی میں عسکری امور پر آنے والے ایک مسودے سے متعلق بھی متنبہ کیا ہے۔
یہ گروپ سن 2026 تک جرمنی میں اضافی امریکی میزائلوں کی تنصیب کے فیصلے کا بھی مخالف ہے۔
جرمنی میں گزشتہ برس اسلام مخالف جرائم کی تعداد دگنی، رپورٹ
وہ جرمن حکومت پر زور دیتے ہیں کہ برلن جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدے پر دستخط کرے۔ سن 2017 کے اس معاہدے پر صرف 54 ممالک نے دستخط کیے ہیں، جس میں نیٹو کا کوئی رکن یا جوہری طاقتوں کا کوئی بھی فریق شامل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق اقوام متحدہ کے اس پرانے معاہدے سے مختلف ہے، جس کی جرمنی سمیت اقوام متحدہ کے تقریباً تمام رکن ممالک نے دستخط اور توثیق کی ہے۔
جرمنی بذات خود ایک جوہری طاقت نہیں ہے، لیکن عام خیال ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ اس کے پاس کئی دہائیوں سے ملک میں امریکی وار ہیڈز کی ایک چھوٹی تعداد موجود ہے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)