جرمنی: جنسی زیادتی میں ملوث افغان مہاجر نابالغ نہیں
9 دسمبر 2017جرمنی کے جنوبی شہر فرائی برگ میں جاری عدالتی مقدمے کے دوران مبینہ افغان مہاجر ’حسین‘ نے اپنی عمر غلط بتانے کے ساتھ اپنے والد کے انتقال کے حوالے سے بھی جھوٹ بولا تھا۔ عدالتی کارروائی کے دوران حسین کا کہنا تھا کہ اس کے والد افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم حسین کے فون سے ملنے والی معلومات کے ذریعے جرمن حکام کی جانب سے ایران میں حسین کے والد سے رابطہ کیا گیا ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران جج کے سامنے حسین کے والد نے فون پر ایک دستاویز پڑھ کر سنایا، جس میں انہوں نے حسین کی تاریخ پیدائش 29 جنوری 1984ء بتائی ہے۔ جس وقت اس افغان مہاجر کو 19 سالہ طالبہ ماریا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا، تو اس نے اپنی عمر 17 سال بتائی تھی۔ لیکن حسین کے والد کی فون کے ذریعے کی جانے والی سماعت سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ’حسین کی عمر 17 سال نہیں بلکہ 32 سال ہے‘۔
فرائی برگ میں نابالغوں کے لیے قائم ضلعی عدالت میں ملزم حسین کی صحیح عمر ثابت ہوجانے کے بعد حسین کو بالغ قرار دیا جائے گا۔ اس مقدمے کا فیصلہ آئندہ سال کے آغاز میں متوقع ہے۔ موجودہ شواہد کے پیشِ نظر عدالت ملزم کے خلاف سخت سزا کا فیصلہ سنا سکتی ہے۔جرمن قوانین کے مطابق خاص صورتحال میں 18 سے21 سالہ بالغ ملزمان کے مقدمے میں نابالغوں کی عدالت میں چلائے جا سکتے ہیں۔
جرمنی، جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے میں افغان مہاجر پر مقدمہ
اس حوالے سے مقدمے کی سماعت کرنے والی خاتون جج کاتھرین شینک کا کہنا ہے کہ حسین کے والد کا بیان حتمی نہیں ہے کیونکہ حسین کے والد سے فون پر گفتگو کرنے والے مترجم نے بتایا ہے کہ ’یہ تاریخ پیدائش فارسی کیلنڈر کے مطابق بھی ہو سکتی ہے۔‘ شینک کا مزید کہنا تھا، ’’چونکہ حسین کے والد پڑھ لکھ نہیں سکتے تو یہ بات ممکن ہے کہ وہ جرمنی میں رازداری کے قانون کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہ سکے ہوں۔‘‘
حسین سن 2015ء میں دیگر مہاجرین کے ساتھ جرمنی پہنچا تھا اور اس نے تنہا نابالغ مہاجر کے طور پر سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔ ملزم حسین میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کا اقبالِ جرم کر چکا ہے۔ بعد ازاں مقتولہ کو جنوب مغربی جرمن شہر فرائی برگ کی جامعہ کے قریب دریا میں ڈبو کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
سن 2015 میں جرمنی پہنچنے سے قبل حسین کو یونان میں ایک نوجوان خاتون پر تشدد کرنے کے جرم میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم بعد میں حسین کو رہا کر دیا گیا تھا۔
اس مقدمے کے پیش نظر جرمنی میں تارکین وطن کے اندراج کے نظام پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ متعلقہ حکام نے حسین کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے موقع پر صحیح عمر کا پتا کیوں نہیں لگایا۔
اس واقعہ کے بعد فرائی برگ میں خوف کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جب کہ جرمنی بھر سے مقتولہ ماریا کے لیے شدید افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔