'جرمنی، سافٹ ویئر کے ذریعے مہاجرین کی ملکی شناخت میں ناکامی‘
27 مئی 2017جرمنی کی امیگریشن اتھارٹی کو زبان کی شناخت کے لیے بنائے گئے اُس نئے سافٹ ویئر کے استعمال میں ناکامی پر تنقید کا سامنا ہے جس کے ذریعے ایسے مہاجرین کے آبائی وطن کا پتہ لگایا جا سکتا تھا جو بغیر کسی شناختی دستاویز کے جرمنی آئے۔ تاہم ناقدین اس ٹیکنالوجی کی افادیت کو شبے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
جرمن روزنامے ’فرانکفرٹر الگمائینے سائیٹنگ‘ کی جمعے کی اشاعت میں رپورٹ کیا گیا کہ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن کو گزشتہ برس سے ایسی سافٹ ویئر تک رسائی حاصل تھی جس کے ذریعے کسی بھی تارک وطن کے لب و لہجے اور زبان کے ذریعے اُس کے آبائی ملک کا سراغ لگایا جا سکتا تھا لیکن اس ادارے نے اس سافٹ ویئر کو استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ فیصلہ جزوی طور پر جرمنی کے پرائیویسی اور ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔ اخبار نے ’بی اے ایم ایف‘ کے مخفی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ادارے نے سن 2016 میں جرمن اور اسرائیلی آئی ٹی فرموں سے زبان اور بولی کی شناخت کے سافٹ ویئر کے استعمال کے تجاویز حاصل کی تھیں لیکن اُس سال سافٹ ویئر کے استعمال کو محض ٹسٹ کی حد تک محدود رکھا گیا۔
جرمنی آنے والے 60 فیصد تارکین وطن کے پاس کسی قسم کی شناختی دستاویزات نہیں تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے آبائی ملک کا تعین اکثر ایک مشکل امر ثابت ہوتا ہے اور پناہ کی مسترد شدہ درخواستوں والے مہاجرین کی اُن کے ملکوں میں واپسی کے عمل میں رکاوٹ بنتا ہے۔
جرمن اخبار ’فرانکفرٹر الگمائینے سائیٹنگ‘ کا دعوی ہے کہ اس سافٹ ویئر کے استعمال سے کم سے کم اُن دو افراد کی شناخت میں مدد مل سکتی تھی جنہوں نے ایک طرف تو پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرائیں اور دوسری طرف جرمنی میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کی۔
ان میں سے ایک تو تیونس کا باشندہ انیس عامری تھا جس نے گزشتہ برس برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ میں ٹرک کے ذریعے دہشت گردانہ حملہ کرنے سے قبل مختلف شناختوں کا استعمال کیا۔
دوسرا شخص جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کا منصوبہ بنانے والا جرمن فوج کا لیفٹیننٹ فرانکو اے ہے جس نے اپنے ہی ملک میں دو مختلف شہروں میں شامی مہاجر کے طور پر سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں، جن میں سے ایک منظور بھی ہو گئی۔ برلن حکام کے مطابق دائیں بازو کے شدت پسند نظریات رکھنے والا یہ فوجی ممکنہ طور پر ایک ایسی دہشت گردانہ کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، جس کا الزام مہاجرین پر عائد کیا جانا تھا۔
تاہم جرمنی کی ایک سیاسی جماعت’ جرمن پیراٹے پارٹی‘ کے ڈیٹا پالیسی کے ایک ترجمان فرانک ہرمن کا موقف ہے کہ یہ واضح نہیں کہ یہ سافٹ ویئر دونوں صورتوں میں کس طرح مددگار ثابت ہو سکتی تھی۔
ہرمن کے مطابق عامری کی پناہ کی درخواست کو پہلے ہی مسترد کیا جا چکا تھا اور اسے حراست میں بھی رکھا گیا تھا۔ یعنی حاکم جانتے تھے کہ وہ جنگ کے نتیجے میں ترک وطن کر کے جرمنی آنے والا مہاجر نہیں ہے اور اسی لیے اسے ڈی پورٹیشن سیل میں بھی رکھا گیا۔
ہرمن کا کہنا تھا کہ اگر زبان سے ملک کا پتہ لگانے والا سافٹ ویئر درست کام بھی کرتا ہو تب بھی سوال یہ ہے کہ اس کا عملی استعمال کس حد تک ممکن ہے۔
باویریا کی ریفیوجی کونسل کے اشٹیفان ڈُن والڈ کا البتہ کہنا تھا کہ سافٹ ویئر کے ذریعے زبان کا تجزیہ اتنا وقت طلب ہے کہ حکام اس کے استعمال کا فیصلہ صرف ایسے کیس میں کرتے ہیں جہاں اُنہیں سکیورٹی خدشات ہوں۔