جرمنی: مساجد کا انسداد دہشت گردی مہم میں کردار
23 ستمبر 2016ڈی ڈبیلو نے اس سلسلے میں جرائم کی تفتیش کے جرمن ادارے سے منسلک مروان ابو طام سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جاری مہم میں مسلم تنظیموں کا کیا کردار ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تقریباً تمام ہی جرمن صوبوں میں پولیس مسلم تنظیموں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔ پولیس افسران کی ان تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور اس وجہ سے گزشتہ برسوں کے دوران اعتماد کی فضا قائم ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فاصلے کم ہو گئے ہیں اور بات چیت میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہو گئی ہیں۔ اسی بناء پر ایسی معلومات سامنے آ جاتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کیا یہ اپنی نوعیت کا ایک ہی واقعہ ہے یا پھر اس سے پہلے بھی مسلم تنظیموں کی وجہ سے کسی مشتبہ دہشت گرد کو گرفتار کیا جا چکا ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ فی الحال اس طرح کی معلومات کے تبادلوں کے بہت کم ہی واقعات سامنے آئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر مروان ابو طام نے کہا اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ شدت پسندی پر مائل افراد ان تنظیموں سے دور ہی رہتے ہیں، جو پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیں، ’’ایک طرف تو جرمنی میں اسلام پسند حلقے کا ایک ایسا ڈھانچہ ہے، جو قانون پر عمل کرتا ہے جبکہ سلفی نظریات کے حامل افراد بھی بڑی تعداد موجود ہیں اور سلفی حلقے پولیس پر کسی طرح بھی بھروسہ نہیں کرتے یعنی دونوں کے مابین اعتماد کا فقدان ہے۔
کیا یہ مسلم تنظیمیں مہاجروں کے مراکز میں بھی کام کر رہی ہیں؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین مساجد کا انتخاب خود ہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلم تنظیموں اور مبلغین پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کے ہاں لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر انتہا پسندی کی طرف لے جایا جاتا ہے۔