جرمنی ميں مہاجر بچوں کے ليے ’جعلی باپ‘ دستیاب
7 جون 2017
جرمنی ميں سالانہ بنيادوں پر قريب پانچ ہزار ايسے کيسز سامنے آ رہے ہيں، جن ميں مردوں نے خود کو ايک يا ايک سے زيادہ بچوں کا باپ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ در حقيقت اُن کا اِن بچوں سے کوئی رشتہ نہيں ہوتا۔ يہ انکشاف گزشتہ روز جرمن دارالحکومت برلن ميں متعلقہ حکام نے کيا۔ يہ عمل عام طور پر جرمن مرد کر رہے ہيں۔ وہ خود کو مہاجرين کے بچوں کا باپ ثابت کر کے بچے يا بچوں کے حقيقی والدين سے معاوضہ طلب کرتے ہيں اور اس کے بدلے ان کی ولديت ثابت ہو جانے پر بچوں کو جرمن پاسپورٹ مل جاتا ہے۔ جرمنی ميں اگر کسی بچے کو شہريت مل جائے، تو قانوناً اس بچے کی والدہ کو بھی مستقل قيام کا ويزا باآسانی مل جاتا ہے۔ اس عمل ميں ملوث پائے جانے والے اکثريتی مرد وہ ہيں، جن کا گزر بسر حکومت کی طرف سے فراہم کردہ مالی مدد سے چل رہا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ انہيں بچوں کی ديکھ بھال کے ليے بھی کچھ ادا نہيں کرنا پڑتا۔
جرمن وزارت داخلہ کے پارليمانی اسٹيٹ سيکرٹری اولے شروڈر نے بتايا، ’’جعلی ولديت کے ذريعے مستقل رہائش کی اجازت حاصل کرنے کا يہ کاروبار ملکی سطح پر جاری ہے۔‘‘ ان کے بقول حکام پانچ ہزار کيسز سے آگاہ ہے ليکن ايسے واقعات کی حقيقی تعداد اس سے زيادہ بھی ہو سکتی ہے۔
جرمنی کے ايک نشرياتی ادارے آر بی بی کے مطابق صرف دارالحکومت برلن ميں ہی گزشتہ برس ايسے سات سو کيسز سامنے آئے۔ برلن کے دفتر استغاثہ کے ترجمان مارٹن اسٹيلٹنر نے بتايا کہ ان کے محکمے نے ايک ايسے فرد کو بھی پکڑا، جو دس مختلف بچوں کی ولديت کے ليے دستاويزات جمع کرا چکا تھا۔
يہ اپنی نوعيت کا ايک مختلف قسم کا جرم ہے اور اسی ليے تاحال يہ واضح نہيں حکام اس کے خلاف کس قسم کی قانونی کارروائی کر سکتے ہيں۔ وفاقی حکومت اس سلسلے ميں قانونی سازی پر غور کر رہی ہے ليکن يہ ايک پيچيدہ معاملہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مارٹن اسٹيلٹنر کے بقول ايسے معاملات کی چھان بين کے ليے کسی کی ذاتی زندگی ميں بھی زيادہ عمل دخل ممکن نہيں اور نہ ہی ڈی اين اے ٹيسٹ کرايا جا سکتا ہے۔ بچوں کے پيدائشی سرٹيفيکيٹ پر جس کا بھی نام درج ہو، قانوناً وہی بچوں کا باپ مانا جاتا ہے خواہ اصل میں ایسا ہو يا نہيں۔