جرمنی: مہاجرین کا فیملی ری یونین کا امکان کم ہے
9 نومبر 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مہاجرین کی مسلسل آمد کے باعث جرمنی کو تارکین وطن کے لیے رہائش اور دیگر وسائل مہیا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسی صورت حال میں جرمنی میں پہلے سے موجود پناہ گزینوں کو ’فیملی ری یونیفیکیشن‘ یا اہل خانہ کو جرمنی بلانے کا حق دینا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
برلن حکومت کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ کا کہنا تھا، ’’اگر آپ ملک بھر میں زمینی حقائق کو دیکھیں تو یہ بات ہر ایک کے لیے واضح ہے کہ ایسی صورت حال میں مہاجرین کے اہل خانہ کو جرمنی بلانا عملی طور پر ناممکن نظر آتا ہے۔‘‘ تاہم زائبرٹ نے یہ بھی وضاحت کی کہ ان کے بیان سے یہ مطلب نہ اخذ کیا جائے کہ اس حوالے سے جرمن قوانین میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔
جرمنی میں سیاسی پناہ سے متعلق دیگر یورپی ممالک کی نسبت آسان قوانین اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ’مہاجرین دوست پالیسی‘ کی وجہ سے زیادہ تر تارکین وطن جرمنی ہی کا رخ کر رہے ہیں۔ حکومتی اندازوں کے مطابق رواں برس کے اختتام تک دس لاکھ سے زائد تارکین وطن کی جرمنی میں آمد متوقع ہے۔ گزشتہ دنوں مقامی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں شائع ہوئی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ اب جرمن حکومت مہاجرین کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر رہی ہے۔
جرمن وزیر داخلہ جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے گزشتہ دنوں ايک مقامی ريڈيو اسٹيشن پر بات چيت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شامی پناہ گزينوں کو جرمنی ميں قيام کے ليے کم مدت کے ويزے ديے جائيں گے اور انہيں اپنے اہل خانہ کو يہاں بلانے کا حق بھی نہيں ہو گا۔
ڈے میزیئر کے بیان کے بعد جرمن حکومت نے وضاحت کی تھی کہ شامی پناہ گزینوں کے حوالے سے جرمنی کی پالیسی میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں لائی جا رہی۔ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے اور شامی تارکین وطن کی تعداد اور حقوق محدود کرنے کے حوالے سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ میں بھی اتفاق رائے ابھی تک پیدا نہیں ہو سکا ہے۔
تاہم حکومتی ترجمان نے واضح کیا ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کو چانسلر انگیلا میرکل کی مکمل حمایت حاصل ہے۔