جرمنی: مہاجرین کی آمد کے خلاف مظاہرے، متعدد مظاہرین زخمی
22 اگست 2015خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعے کے روز سینکڑوں افراد ڈریسڈن میں ڈھائی سو مہاجرین کو بسائے جانے کے خلاف احتجاج کرنے پُرامن انداز سے سڑکوں پر نکلے۔ تاہم ہفتے کے روز اس احتجاج نے پرتشدد رنگ اختیار کر لیا۔ ڈریسڈن کے قریب ایک علاقے میں ہونے والے اس احتجاج میں شامل افراد نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور بوتلوں سے نشانہ بنایا، جس کے جواب میں پولیس نے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس استعمال کی۔
روئٹرز کے مطابق جمعے کے روز ہائیڈناؤ کے علاقے میں ایک خالی عمارت میں ڈھائی سو مہاجرین کو بسانے کے حکومتی فیصلے کے خلاف مقامی افراد نے مارچ کیا، تاہم بعد میں اس احتجاج میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی NPD کے شدت پسند بھی شامل ہو گئے، جنہوں نے سخت نعرے بازی شروع کر دی۔ ان افراد کا کہنا تھا، ’وِیئر زِنتھ داس فولک‘ یا ’عوام ہم ہیں‘۔
یہ بات اہم ہے کہ یہ ٹھیک وہی نعرہ ہے، جو سابقہ مشرقی جرمنی میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں لگایا جاتا تھا اور جس کا اختتام دیوارِ برلن کے انہدام اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی صورت میں نکلا تھا۔ ان ہفتہ وار احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں افراد شریک ہوا کرتے تھے۔ حال ہی میں جرمنی میں اسلام مخالف تنظیم پیگیڈا بھی اپنے مظاہروں میں اسی نعرے کا استعمال کرتی رہی ہے اور ان مظاہروں میں بھی بعض اوقات ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق مہاجرین کے خلاف جمع قریب ایک ہزار مظاہرین کو بعد میں پولیس نے منتشر کر دیا۔
ایک پولیس ترجمان نے ٹاگیز شاؤ آن لائن نامی ویب سائٹ سے بات چیت میں کہا کہ پرتشدد مظاہرے کے بعد اب صورت حال قابو میں ہے۔ تاہم اس ترجمان کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ معلوم نہیں کہ کتنے افراد زخمی یا گرفتار ہوئے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ جرمنی یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کی تگ و دو میں ہے اور مقامی سطح پر سیاست دان اس معاملے پر دو مختلف آرا کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔