جرمنی: مہاجرین کی ملک بدری کے لیے خصوصی اہلکار درکار
29 اپریل 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی وفاقی حکومت فوری طور پر ایسے افراد کی تلاش میں ہے جو پناہ کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد پناہ گزینوں کو ان کے آبائی ممالک کی جانب واپس لوٹانے میں جرمن حکومت کی مدد کر سکیں۔
یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے
جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق ایسے غیر ملکیوں، جنہیں اس برس لازمی طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے، کی تعداد چار لاکھ پچاسی ہزار سے زائد ہے۔ جرمنی کے مؤقر جریدے ڈیئر اشپیگل نے وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن حکومت اس وقت ایسے چار سو سے زائد اہلکاروں کی رضاکارانہ خدمات حاصل کر رہی ہے، جو تارکین وطن کی ملک بدری میں حکومت کی مدد کریں گے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ان اقدامات کا مقصد مہاجرین کی فوری اور بڑی تعداد میں وطن واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ اس عمل کے لیے رضاکارانہ بنیادوں پر منتخب کیے گئے یہ اہلکار چھ سے پندرہ ماہ کے عرصے کے لیے برلن حکومت کی معاونت کریں گے۔
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ طور پر معاونت کرنے کے لیے کسی پیشگی تجربے کی ضرورت نہیں ہے اور منتخب کیے جانے والے اہلکاروں کو جرمنی کا وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن خصوصی تربیت فراہم کرے گا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت مہاجرین کو جلد از جلد اور ایک نمایاں تعداد میں ان کے آبائی ملکوں کی جانب واپس بھیجنا چاہتی ہے۔ اسی لیے رضاکاروں کی بھرتی بھی فوری طور پر شروع کر دی گئی ہے اور ایسے اہلکار اگلے ماہ پانچ مئی سے ہی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔
جرمنی کو پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزروں کو ملک بدر کرنے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ بعض ممالک اپنے شہریوں کی واپسی میں تعاون کرنے سے گریزاں ہیں جب کہ جرمنی میں بھی کئی ریاستیں ایسی بھی ہیں جو تارکین وطن، خاص طور پر افغان شہریوں کی وطن واپسی کی مخالفت کر رہی ہیں۔
رواں برس فروری کے مہینے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے وفاقی جرمن ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کی تھی، جس میں میں پناہ گزینوں کی ملک بدری کی رفتار میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کے مطابق گزشتہ برس اسّی ہزار سے زائد غیر ملکی ایسے تھے، جو یا تو رضاکارانہ طور پر جرمنی سے چلے گئے تھے یا پھر انہیں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘