جرمنی، مہاجرین کے خلاف نسل پرستانہ حملوں، مظاہروں میں اضافہ
30 اگست 2018پولیس کے مطابق ایک بیس سالہ مہاجر اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا جب جرمن زبان بولنے والے تین افراد نے اسے روک کر اس سے بد زبانی شروع کر دی۔ ان میں سے دو افراد نے اسے چہرے پر مارا جس کے بعد تیسرے شخص نے لوہے کی ایک زنجیر سے اس مہاجر کی پسلیوں اور کندھے پر ضربیں لگائیں۔ اس حملے کے نتیجے میں یہ تارک وطن زمین پر گر گیا اور اسے زدو کوب کرنے کے بعد تینوں افراد فرار ہو گئے۔
پولیس نے مہاجر پر حملے کے خلاف تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کی شناخت ابھی واضح نہیں کی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس مار پیٹ کے نتیجے میں نوجوان تارک وطن کی ناک ٹوٹ گئی جبکہ اس کے چہرے اور جسم کے بالائی حصے پر نیل پڑ گئے۔
اس بالٹک ساحلی شہر میں اجانب پسندی کا یہ تازہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب اختتامِ ہفتہ پر غیر ملکیوں اور تارکین وطن کے خلاف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں نے جرمن ریاست سیکسنی میں بھر پور مظاہرے کیے ہیں۔ یہ ریاست ایک طویل عرصے سے اجانب دشمنی کا مرکز ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک پینتیس سالہ جرمن شخص کی ایک شامی اور عراقی قومیت کے افراد کے ہاتھوں مبینہ ہلاکت کے بعد اختتام ہفتہ پر جرمن شہر کیمنِٹز میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے مسلسل دو روز تک احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ ان مظاہرین نے کچھ ایسے افراد کا پیچھا بھی کیا جنہیں وہ مہاجرین سمجھ رہے تھے۔
سیکسنی کی ریاست میں پولیس نے اتوار کے روز کم سے کم تین غیر ملکیوں پر انتہا پسندانہ حملے کیے جانے کو رپورٹ کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے دس کیسز کی بھی تحقیقات کی جارہی ہیں جن کے مطابق مظاہرین نے ہٹلر کی طرز کا غیر قانونی سلیوٹ کیا تھا۔
جرمن ریاست سیکسنی ایسے افراد کا گڑھ ہے جو ملکی چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین کے حوالے سے اوپن ڈور پالیسی کے سخت مخالف اور ناقد ہیں۔ اس پالیسی کے تحت میرکل نے سن 2015 میں لاکھوں مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھول دیے تھے۔
ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی