جرمنی میں اسلام: مسلم تارکین وطن کی آمد ’فائدہ مند‘
29 دسمبر 2015ڈاکٹر بلند اُچار جرمنی کے شمالی شہر اوسنابروک میں قائم اسلامی تعلیمات کے ادارے کے سربراہ ہیں۔ جرمن کلیسائی نیوز ایجنسی ای پی ڈی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران عرب اور کرُد مسلمانوں کی آمد سے جرمنی میں اسلام کے اب تک کے تشخص میں تنوع پیدا ہو گا۔
جرمنی میں آباد مسلمانوں میں قریب 60 فیصد تعداد ترک نژاد ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں لاکھوں ترک باشندے ’مہمان مزدوروں‘ کے طور پر جرمنی آئے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر اُچار کا کہنا ہے کہ جرمنی میں اس وقت آباد مسلمانوں کے برعکس دوسرے ممالک سے آنے والے مسلم تارکین وطن کی پرورش زیادہ تر روایتی اسلامی معاشروں میں ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، ’’یہ بات معاشرے کے مسلم حصے کی کثیرالجہتی کا سبب بنے گی جو کہ ظاہر ہے کہ ایک مثبت عمل ہے۔ دونوں طرح کے مسلمان (پہلے سے یہاں آباد اور نئے آنے والے مسلم تارکین وطن) ایک دوسرے سے کافی کچھ سیکھ سکیں گے۔‘‘
اوسنابروک انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ کے بقول نئے مسلم تارکین وطن کے باعث جرمنی میں ’مسلمانوں کی مرکزی کونسل‘ کہلانے والی نمائندہ ملکی تنظیم کے اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہو گا۔
تاہم بلند اُچار نے خبردار کیا کہ مسلمان مہاجرین کی آمد کے بعد ملک میں اسلام کی سخت گیر اور بنیاد پرستانہ تشریحات کو ترویج بھی مل سکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اُچار نے یہ تسلیم بھی کیا کہ ابھی ’ہمیں نئے آنے والے مسلمانوں کے مذہبی فہم سے متعلق بہت کم معلومات دستیاب ہیں‘۔
ڈاکٹر اُچار کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر شام سے جرمنی آنے والے مہاجرین اپنے وطن میں ایک کثیرالمذہبی معاشرے میں رہتے رہے ہیں۔ شام میں مسلم اور مسیحی عقائد کے باشندے صدیوں سے پرامن طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے رہے ہیں۔ اُچار نے کہا، ’’دراصل جرمنی ایسے انسانوں کے تجربات سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘
پروفیسر بلند اُچار کی رائے میں ’دولت اسلامیہ‘ اور دیگر مذہبی بنیاد پرست گروپوں کی عسکریت پسندی سے بھاگ کر آنے والے تارکین وطن شدت پسند رجحانات نہیں رکھتے۔ ’’یہ لوگ صدمے کا شکار ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذہبی جنونیت کے ساتھ زندہ رہنے کا تجربہ کیسا ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اُچار نے ای پی ڈی کو بتایا کہ تارکین وطن کے جرمن معاشرے میں انضمام کے لیے اقدامات کرنا اور انہیں جمہوری حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہ کرنا جرمن حکومت کی ذمہ داری ہے، تاہم اسی عمل میں مساجد اور مسلم ثقافتی مراکز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
اسلامی علوم کے اس ترک نژاد جرمن ماہر کے نزدیک مجموعی طور پر نئے آنے والے مسلم تارکین وطن میں ہم آہنگی کے احساس کو تقویت دینا بھی بہت ضروری ہو گا۔ ’’ہمیں انہیں دکھانا ہو گا کہ یہ تارکین وطن بھی اپنے اپنے مذہب اور قومیت سے قطع نظر، تمام تر شہری حقوق اور آزادیوں کے ساتھ جمہوری جرمن معاشرے کا حصہ ہیں۔‘‘