1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں اسلامی ریاست کے دو مشتبہ حامی گرفتار

ندیم گِل19 اکتوبر 2014

جرمنی میں اسلامی ریاست کے مبینہ حامیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔ وکلائے استغاثہ کے مطابق دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ متعدد کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DYHX
تصویر: picture-alliance/dpa

پولیس نے ہفتے کو جرمنی کے شہر آخن میں دو افراد کو گرفتار کیا۔ ان میں سے ایک اڑتیس سالہ تیونس کا شہری بن یحیٰ جبکہ دوسرا اٹھائیس سالہ روس کا شہری یوسف جی ہے۔

بن یحیٰ پر الزام ہے کہ اس نے سنی شدت پسند گروہ اسلامی ریاست کو گیارہ سو یورو مالیت سے زائد کے کپڑے دیے جبکہ تین ہزار چار سو یورو نقد فراہم کیے۔

وکلائے استغاثہ کے مطابق اس شخص نے ایک سترہ سالہ نوجوان کو جرمنی سے شام منتقل کیا تاکہ وہ اسلامی ریاست کے جہادیوں کے ساتھ شامل ہو سکے۔ گرفتار شدہ روسی شہری پر ان کاموں میں بن یحیٰ کی معاونت کا الزام ہے۔

جرمنی کی سات مختلف ریاستوں میں مبینہ حامیوں کےگھروں پر چھاپے بھی مارے گئے ہیں اور تلاشی لی گئی۔ ان سب پر ایک غیرملکی دہشت گرد گروہ کی حمایت کا شبہ تھا۔

ان پر یہ شبہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ انہوں نے احرار الشام کو جوتے، کپڑے اور دیگر سامان فراہم کیا۔ احرارالشام آئی ایس کے خلاف لڑنے والے باغی گروپوں میں سے ایک ہے۔

جرمنی میں پولیس نے گزشتہ ماہ اسلامی ریاست کے ساتھ روابط کے الزام پر ترکی کے ایک شہری کو بھی گرفتار کیا تھا۔ اس پر شام میں اسلامی جہادیوں کے شدت پسندوں کے ساتھ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔

یہ شخص اگست میں جرمنی لوٹا تھا جس کے بعد پولیس نے اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ اس پر جرمنی کے فوجداری قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جو دہشت گردی کے الزامات سے متعلق ہے۔

جرمن خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ تقریباﹰ چار سو جرمن شہری عراق اور شام میں جہادیوں سے وابستہ ہیں اور ان میں سے تقریباﹰ ایک سو تیس عسکریت پسندی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد جرمنی واپس آ چکے ہیں۔

خیال رہے کہ جہاں جرمنی میں ایک طرف شدت پسند تنظیموں کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں وہیں ان شدت پسند گروہوں کے خلاف احتجاج بھی ہو رہا ہے۔

اس احتجاج میں یورپ میں رہنے والے کرد شہری بالخصوص پیش پیش ہیں جو جرمنی کے ساتھ ساتھ بیلجیئم اور فرانس میں بھی مظاہرے کر رہے ہیں۔ گزشتہ دِنوں وہ یورپی پارلیمنٹ کی عمارت میں بھی گھس گئے تھے۔ وہ شام میں کرد اکثریتی علاقے کوبانی پر جہادیوں کی چڑھائی پر احتجاج کر رہے تھے۔