جرمنی میں افغان تارکین وطن: مخالفت کے باوجود ملک بدری
23 جنوری 2017شمالی جرمن صوبے شلیس وِگ ہولشٹائن کے وزیر داخلہ اور سیاسی جماعت ایس پی ڈی کے ایک اہم رہنما شٹیفان شٹُٹ کے مطابق افغانستان کی صورت حال کو سامنے رکھا جائے، تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان مہاجرین کو ’انسانی وقار‘ اور مکمل ’تحفظ‘ کے ساتھ واپس ان کے وطن بھیجا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا بھی کہنا ہے افغانستان میں حالیہ کچھ ماہ میں سلامتی کی صورت حال انتہائی ابتر ہو گئی ہے اور ملک کا کوئی بھی حصہ محفوظ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
گزشتہ برس جرمن حکومت اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت سیاسی پناہ کے ایسے افغان متلاشی جن کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہوں، انہیں وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ برس کے آخر میں افغان مہاجرین کا ایک گروپ کابل بھیجا گیا تھا۔
صوبائی وزیر داخلہ شٹُٹ نے کہا کہ افغانستان میں جاری خون ریزی کی وجہ سے وہاں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’مسلح تنازعے کی وجہ سے پورا افغانستان متاثر ہے۔‘‘ انہوں نے اسی تناظر میں کہا کہ افغان مہاجرین کی جرمنی بدری روکی جانا چاہیے۔
کرسمس سے قبل سیاسی پناہ کے ناکام افغان درخواست گزاروں کا پہلا گروپ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے کابل بھیجا گیا تھا، جس کے بعد متعدد جرمن شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
ان تارکین وطن کی مدد کرنے والی جرمن تنظیم ’پرو ازِیول‘ کے مطابق گزشتہ برس افغان باشندوں کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
بتایا گیا ہے کہ واپس افغانستان بھیجے جانے والے اس نئے گروپ میں پچاس افغان باشندے شامل ہیں۔ حکام کے مطابق یہ تمام تارکین وطن مرد ہیں اور ان میں سے متعدد جرائم میں ملوث بھی رہے ہیں۔ ’جرمن ایڈیٹوریل نیٹ ورکس‘ نامی ادارے کے جریدوں کے ساتھ ایک انٹرویو میں شٹُٹ نے کہا کہ اس وقت یہ تارکین وطن جرمن صوبوں باویریا، باڈن ورٹمبرگ اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مقیم ہیں۔