جرمنی میں افغان تارکین وطن کا مستقبل کیا ہے؟
30 مئی 2016بحیرہ ایجیئن کی خونخوار لہریں جب تارکین وطن سے لدی کشتی میں داخل ہونا شروع ہوئیں تو جواد کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی موت یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن وہ موت کے منہ سے نکل کر بالآخر جرمنی پہنچ ہی گئے۔
جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
پچیس سالہ افغان تارک وطن اب اپنے دو کم سن بچوں اور بیوی کے ہمراہ جرمنی میں پناہ گزینوں کے ایک مرکز میں مقیم ہے۔ جواد جب بھی یہ سنتا ہے کہ جرمن حکومت افغان تارکین وطن کو واپس بھیج دے گی، تو غیر یقینی مستقبل کا خیال اسے اداس کر دیتا ہے۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے جواد کا کہنا تھا، ’’میرا خاندان پناہ کا مستحق ہے، ہمیں صرف ایک موقع دیا جائے۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ملک میں تارکین وطن کی آباد کاری کی نئی حکمت عملی نے جواد اور اس جیسے ہزاروں دیگر افغان تارکین وطن کو پریشان کر رکھا ہے۔
جرمنی میں غیر محفوظ سمجھے جانے والے ممالک یعنی شام، عراق اور اریٹریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو تو فوری طور پر نہ صرف پناہ مل جاتی ہے بلکہ ان کا سماجی انضمام یقینی بنانے کے لیے انہیں جرمن زبان اور فنی تربیت کے کورسز میں فوراﹰ داخلہ بھی مل جاتا ہے۔
دوسری جانب مشرقی یورپ اور دیگر خطوں کے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن، جنہیں جرمنی میں پناہ دیے جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فوری فیصلے کر کے انہیں ان کے آبائی ملکوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔
افغان پناہ گزینوں کا شمار ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کیا جاتا ہے، جنہیں جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تو پچاس فیصد سے کچھ کم ہیں لیکن جن کی جرمن حکومت رضاکارانہ واپسی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور نئے افغان پناہ گزینوں کی ملک میں آمد کی حوصلہ شکنی بھی کی جاتی ہے۔
وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا، ’’افغانستان سے آنے والے تارکین وطن کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہیے کہ انہیں جرمنی میں قیام کی اجازت مل جائے گی۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار اور بیانات کے برعکس حقیقت کچھ اور ہی دکھائی دیتی ہے۔ مہاجرین کے حقوق کے کام کرنے والی جرمن تنظیم ProAsyl کے مطابق اگر جرمنی میں افغان تارکین وطن کے اعداد و شمار کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو درحقیقت 80 فیصد کے قریب افغان پناہ گزینوں کو جرمنی میں سیاسی پناہ مل جاتی ہے۔
ProAsyl کے نائب صدر بیرنڈ میسووچ کا کہنا ہے، ’’ہم افغان پناہ گزینوں کو بتاتے ہیں کہ انہیں جرمنی میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات نسبتاﹰ کافی زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔ جرمن حکومت ایسے افغان باشندوں کے بارے میں جس طرح کے بیانات دے رہی ہے، اس کا مقصد ان کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔‘‘
برلن حکام کے نزدیک افغان تارکین وطن کی رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کی حوصلہ افزائی اور افغانستان سے جرمنی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی حوصلہ شکنی کرنے کی پالیسی بہت اہم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جرمنی پہنچ جانے والے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے سے پہلے ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں کے لیے طویل وقت درکار ہوتا ہے۔
گزشتہ برس جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد 2014ء کے مقابلے میں دگنا تھی لیکن اس کے باوجود قریب اکیس ہزار پناہ گزینوں کو ہی ملک بدر کیا جا سکا تھا اور ان میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق مشرقی یورپی ملکوں سے تھا۔ اسی دوران 37 ہزار غیر ملکی رضاکارانہ طور پر بھی واپس اپنے وطنوں کو لوٹ گئے تھے۔
حوصلہ شکنی کے باوجود شامی مہاجرین کے بعد افغان تارکین وطن کی تعداد جرمنی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ان کی درخواستوں پر فیصلے کرنے اور انہیں جرمن زبان اور سماجی انضمام کے پروگراموں میں شریک ہونے کی اجازت دینے میں کافی وقت لگ رہا ہے لیکن اس کے باجود افغان تارکین وطن اپنے ملک واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
جواد کا کہنا تھا، ’’ہمیں پورا یقین ہے کہ جرمن حکومت ہمارے ساتھ بہتر سلوک کرے گی۔ اگر ہمیں یہ یقین نہ ہوتا تو جرمنی کا رخ ہی نہ کرتے۔‘‘