جرمنی میں تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی
10 اپریل 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یورپی یونین اور ترکی میں گزشتہ برس مارچ میں طے پانے والے معاہدے کی بعد سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان اور پھر جرمنی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، جس کی وجہ جرمنی اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بہت سے اتار چڑھاؤ کے باوجود ترکی کی جانب سے اس معاہدے کی پاس داری بھی ہے۔ اس کے علاوہ تارکین وطن کی جرمنی آمد کی ایک اور وجہ بلقان ریاستوں کی جانب سے اپنی سرحدوں کی بندش بھی ہے، کیوں کہ اسی راستے سے تارکین وطن یونان سے مغربی یورپ پہنچ رہے تھے۔
یہ بات اہم ہے کہ تارکین وطن کے شدید بہاؤ کی وجہ سے جرمنی میں چانسلر انگیلا میرکل کی مقبولیت میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی تھی اور اس صورت حال کا فائدہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی کو پہنچا تھا، جو ماضی میں انتہائی غیرمقبول تھی، تاہم حالیہ کچھ عرصے میں اسی معاملے کو موضوع بنا کر اس جماعت نے جرمن ووٹروں کی خاصی توجہ حاصل کی۔
روئٹرز کے مطابق تارکین وطن کی تعداد میں اس نمایاں کمی ہی کا اثر ہے کہ اب آلٹرینیٹو فار جرمنی کی مقبولیت کا گراف ایک مرتبہ پھر گرتا جا رہا ہے۔
پیر کے روز جرمن وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس جنوری سے مارچ تک کے عرصے میں جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد 47 ہزار تین سو رہی ہے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے تھا، جب کہ اس عرصے میں مجموعی طور پر ساٹھ ہزار افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں، جو گزشتہ برس اسی عرصے کے مقابل میں دو تہائی کم ہیں۔
مہاجرت اور پناہ گزینوں سے متعلق جرمن دفتر کے مطابق جنوری سے مارچ تک کے عرصے میں سیاسی پناہ کی پہلے سے جمع کرائی گئی درخواستوں میں سے دو لاکھ بائیس ہزار تین سو پچانوے پر فیصلہ دیا گیا، جن میں سے نصف مہاجرین کو جرمنی میں رہنے کی اجازت دی گئی اور اس تعداد کے پانچویں حصے کو باقاعدہ طور پر پناہ گزین کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
وزارت داخلہ کے مطابق سیاسی پناہ کے دو لاکھ اٹھتر ہزار متلاشی اب بھی اپنی درخواستوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔