1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمنی میں حیاتیاتی ہتھیار بنانے والا کیسے گرفتار ہوا‘

14 جون 2018

جرمن شہر کولون کی پولیس نے ایک اپارٹمنٹ پر چھاپا مار کر انتہائی زہریلا مواد برآمد کر لیا جب کہ ضیف اللہ ایچ نامی ملزم کو حراست میں لے لیا ہے۔ ملزم سن 2016 میں جرمنی آیا تھا اور دہشت گردوں سے ہم دردی رکھتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2zYAi
Rizin in Köln entdeckt
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Young

وفاقی جرمن استغاثہ نے جمعرات کو تیونس سے تعلق رکھنے والے اس 29 سالہ ملزم پر حیاتیاتی ہتھیار بنانے کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کر دیا ہے۔ پولیس نے اس ملزم کے اپارٹمنٹ سے انتہائی خطرناک زہر برآمد کیا تھا۔ ضیف اللہ ایچ گزشتہ دو روز سے پولیس کی حراست میں ہے اور اسے جنگی ہتھیاروں کے انسداد کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر ریاست کے خلاف انتہائی پرتشدد کارروائی کی تیاری کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

شام کی طرف سے کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی، امریکا کا سخت ردعمل

کیمیائی ہتھیاروں کے ادارے نے دوما میں چھان بین مکمل کر لی، روس

جرمنی بہت سے کیمیائی ہتھیار حاصل اور نصب کرنا چاہتا تھا

منگل کی شب خصوصی پولیس نے فائربریگیڈ کے یونٹس کے ساتھ ضیف اللہ ایچ کے گھر چھاپا مارا اور وہاں انہیں انتہائی خطرناک زہر ’رائسین‘ ملا۔

یہ بات اہم ہے کہ ملزم کی جانب سے ایک ہزار کیسٹر یا ارنڈ کے بیچوں کا آن لائن آرڈر دینے پر سکیورٹی ادارے چوکنا ہو گئے تھے۔ رائسین بنانے کے لیے یہ اہم اور بنیادی جزو ہے۔ اس ملزم نے پھر مئی کے وسط میں آن لائن ہی کافی پسینے والی مشین کا آرڈر بھی دیا۔ استغاثہ کے مطابق ملزم نے جون میں کامیابی کے ساتھ یہ زہریلا مادہ تیار کر لیا۔

رائسین نامی یہ کیمائی مادہ انتہائی زہریلا ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سائنائیڈ سے چھ ہزار گنا زیادہ زہریلا ہے۔ اس مادے کو سن 1997 میں کیمیائی ہتھیاروں کے انسداد کے عالمی معاہدے کے ذریعے بھی ممنوعہ قرار دیا گیا تھا۔

جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس مادے سے کسی ربط کی صورت میں انسانی اعضاء فیل ہو سکتے ہیں اور کسی شخص کی فقط چھتیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں موت واقع ہو سکتی ہے۔ رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ بھی رائسین کو ’ممکنہ حیاتیاتی ہتھیار‘ قرار دیتا ہے۔ اس زہر کا کوئی تریاق بھی دستیاب نہیں ہے۔

جرمن میڈیا کے مطابق ملزم ایچ نومبر 2016 میں جرمنی پہنچا اور دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ ہم دری رکھتا ہے۔ تاہم استغاثہ کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد نہیں ملے ہیں، جن سے ظاہر ہو کہ ملزم کسی خاص وقت یا کسی خاص مقام پر دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا یا وہ کسی دہشت گرد تنظیم کا باقاعدہ رکن ہے۔

ع ت / ع ح / ڈی پی اے