جرمنی میں ختنے کی آئندہ بھی اجازت ہو گی، بنڈس ٹاگ
13 دسمبر 2012اس بارے میں برلن میں وفاقی جرمن پارلیمان نے کل بدھ کے روز اکثریتی رائے سے مسلمان اور یہودی گھرانوں کی اس طبی اور مذہبی روایت کو اپنی تائید کے ساتھ ایک قانونی بنیاد فراہم کر دی۔
جرمن ایوان زیریں بنڈس ٹاگ میں اس موضوع پر ہونے والی رائے شماری میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی گروپوں کے ارکان نے اپنی اپنی پارٹی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر حصہ لیا اور مجموعی طور پر اس سلسلے میں ایک حکومتی مسودہء قانون کی ایوان میں موجود 580 ارکان میں سے 434 نے حمایت کر دی۔
یہ رائے شماری خفیہ نہیں تھی بلکہ ارکان پارلیمان کے نام لے کر ان سے اپنی رائے دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ رائے دہی کے اس عمل میں 100 منتخب ارکان نے اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ 46 ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔
بنڈس ٹاگ کی اس کارروائی کے دوران ارکان نے اسی موضوع پر ایک متبادل مسودہء قانون کو اکثریتی رائے سے مسترد بھی کر دیا۔ اس مسودے میں کہا گیا تھا کہ جرمنی میں لڑکوں کے ختنے کے لیے عمر کی کم از کم حد 14 سال مقرر کی جانی چاہیے۔ اس قانونی بل کو ایوان میں موجود 580 میں سے 462 ارکان نے رد کر دیا۔
دنیا کے دیگر خطوں میں آباد مسلمانوں اور یہودیوں کی طرح جرمنی میں مقیم مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے بھی ان کے لڑکوں کے ختنے ایک ایسا عملِ جراحی ہے، جس کے پیچھے مضبوط مذہبی روایات کارفرما ہیں۔
جرمن معاشرے میں یہ بحث اس وقت بڑی شدت اختیار کر گئی تھی جب اس سال مئی میں کولون کی ایک صوبائی عدالت نے ایک مقدمے میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ لڑکوں کے ختنے کی حیثیت انہیں جسمانی طور پر زخمی کرنے جیسی ہے۔ اس پر جرمن قانون ساز معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے نئے سرے سے قانون سازی پر مجبور ہو گئے تھے۔
اب بنڈس ٹاگ نے جو اکثریتی فیصلہ کیا ہے، اس کے مطابق جرمنی میں ’والدین کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنے بارے میں کم عمری کی وجہ سے خود کوئی فیصلہ نہ کر سکنے والے اپنے بچوں کے ایسے حالات میں بھی ختنے کرا سکتے ہیں کہ یہ عمل طبی وجوہات کی بناء پر ضروری نہ ہو تاہم اس عمل کی مروجہ ضابطوں کے مطابق اور طبی ماہرین کی نگرانی میں ہی اجازت ہو گی‘۔
ساتھ ہی وفاقی جرمن پارلیمان نے یہ فیصلہ بھی دیا ہے کہ ختنے کے عمل سے پہلے، دوران اور بعد میں ’بچوں کی جسمانی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے اور لڑکوں کی عمر اگر چھ ماہ سے کم ہو تو یہ ختنے کسی ماہر ڈاکٹر کے بجائے باقاعدہ طور پر تربیت یافتہ مسلم یا یہودی جراح سے بھی کرائے جا سکتے ہیں‘۔
جرمنی میں بہت سے سماجی اور سیاسی حلقے ایسے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ اپنے ختنے کرانا یا نہ کرانا ایک ایسا فیصلہ ہے جو خود متعلقہ لڑکے کو بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد کرنا چاہیے اور والدین کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اچھے برے سے بے خبر کسی بھی بچے کے لیے یہ فیصلہ کریں۔
دوسری طرف کئی حلقوں کی سوچ یہ بھی ہے کہ جرمنی میں ختنے کی اجازت اس وقت ہونی چاہیے، جب کسی بھی لڑکے کی عمر کم از کم 14 سال ہو جائے۔ اس سلسلے میں بنڈس ٹاگ نے جو متبادل قرارداد اکثریتی رائے سے مسترد کر دی، وہ اسی سوچ کے حامی قریب 66 ارکان پارلیمان نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی۔
عدالتی حکم کے پس منظر میں اس متنازعہ موضوع پر پارلیمان کے اکثریتی فیصلے کے بعد وفاقی جرمن وزیر انصاف زابینے لوئٹ ہوئسر شنارن بیرگر نے کہا، ’پارلیمان نے جو قانونی بل منظور کیا ہے، اس میں بچوں کی پرورش سے متعلق والدین کے حق پر زور دیا گیا ہے، جس میں مذہبی آزادی کا حق بھی شامل ہے‘۔ جرمن وزیر انصاف نے مزید کہا: ’ہماری جدید اور سیکولر ریاست میں یہ کام ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے کہ وہ بچوں کی پرورش اپنے سر لے لے‘۔
(mm / aa (kna