1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کے شبے میں پولیس کی بڑی کارروائی

علی کیفی
8 اکتوبر 2016

جرمنی میں پولیس کے اہلکاروں نے، جن کے ساتھ خصوصی کمانڈو دستے کے سپاہی بھی تھے، مشرقی جرمن شہر کیمنٹس میں ایک شامی شہری کے گھر کی تلاش لی تاہم یہ شخص، جس پر ایک بم حملے کا منصوبہ بنانے کا الزام ہے، فرار ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/2R2Wo
Fahndung nach Syrer Dschaber Al-Bakr nach Sprengstoff-Fund in Chemnitz
جرمن پولیس جابر البقر نامی اس بائیس سالہ شامی شہری کو ملک بھر میں تلاش کر رہی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Polizei Sachsen

جرمن پولیس کو جمعہ سات اکتوبر کی شام داخلی انٹلیجنس کے ذریعے یہ خبر ملی تھی کہ کیمنٹس میں قیام پذیر ایک بائیس سالہ شامی شہری جابر البقر کسی بم حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ آٹھ اکتوبر ہفتے کے روز پولیس کے سینکڑوں سپاہیوں نے اس شامی شہری کی تلاش میں کیمنٹِس شہر کے ایک رہائشی علاقے کو کھنگال ڈالا۔

علی الصبح شروع ہونے والی پولیس کی یہ کارروائی کئی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس دوران فرِٹس ہیکرٹ نامی علاقے کو جانے والے راستے پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں اور اس علاقے کو جزوی طور پر خالی بھی کروا لیا گیا۔

اِس شامی شہری کے اپارٹمنٹ پر چھاپے کے دوران پولیس کو یہ شامی شہری تو نہیں مل سکا تاہم اُسے گھر پر ایسے شواہد ضرور مل گئے، جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں بارودی مواد رکھا گیا تھا۔

جرمن صوبے سیکسنی کے جرائم کی تفتیش کے محکمے کے ترجمان ٹوم بیرنہارڈ نے بتایا کہ پولیس کی اب تک تمام تر کارروائی کے باوجود اس حملے کے منصوبے کے حوالے سے ’کہاں، کب، کیسے اور کیوں‘ جیسے سوالات بدستور جواب طلب ہیں۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو سکیورٹی ذرائع کی وساطت سے پتہ چلا ہے کہ مفرور شامی شہری کا تعلق شدت پسند ملیشیا ‘اسلامک اسٹیٹ‘ سے ہو سکتا ہے۔ اب جرمنی بھر میں اس شامی شہری کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ ٹوم بیرنہارڈ کے مطابق ’ہم اُسے جتنی جلد ممکن ہو سکے، تلاش کر لینا چاہتے ہیں‘۔

Deutschland Polizeieinsatz in Chemnitz
آٹھ اکتوبر کو کیمنِٹس شہر میں جرمن پولیس کے سینکڑوں اہلکاروں کا علی الصبح شروع ہونے والا بڑا آپریشن کئی گھنٹے تک جاری رہاتصویر: picture-alliance/dpa/B. März

ابھی یہ بات بھی واضح نہیں کہ آیا یہ شامی شہری شامی مہاجرین کے ہمراہ جرمنی پہنچا تھا تاہم فرِٹس ہیکرٹ شہر کیمنِٹس کے جنوب مغرب میں واقع وہ علاقہ ہے، جہاں بڑی تعداد میں مہاجرین کو رہائش فراہم کی گئی ہے۔

پولیس ترجمان کے مطابق ابھی یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ آیا یہ شامی شہری اکیلا ہی کسی منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے کوشاں تھا یا آیا کچھ اور لوگ بھی اُس کے ساتھ تھے۔

جرمنی اب تک اُس طرح کے دہشت گردانہ حملوں سے بچا رہا ہے، جن کا سامنا اس کے ہمسایہ ملکوں بیلجیم اور فرانس کو کرنا پڑا ہے۔ اس سال جولائی کے اواخر میں البتہ جرمنی میں دو ایسے حملے ضرور ہوئے، جن کی ذمہ داری ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے قبول کی تھی۔ ان میں سے ایک حملہ وُرس بُرگ نامی شہر کے قریب ایک ریل گاڑی پر کیا گیا تھا جبکہ دوسرا حملہ انسباخ نامی شہر میں موسیقی کے ایک میلے پر کیا گیا تھا، جس میں پناہ کے متلاشی ایک حملہ آور نے مجموعی طور پر بیس افراد کو زخمی کر دیا تھا۔