جرمنی میں آباد مسلمانوں نے سامیت مخالفت سے دوری اختیار کی ہے
23 مئی 2021جرمنی کے مختلف شہروں میں غزہ کی حالیہ جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں مختلف پس منظر کے حامل مسلمانوں نے شرکت کی۔ انہی میں سے ایک تیس سالہ شامی مہاجر مازن بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں غزہ میں اسرائیلی تشدد کے خلاف احتجاج کرنا تھا اور وہ اپنی مرضی سے اس مظاہرے میں شرکت کے لیے گیا۔ ان کے خیال میں 'اسرائیل بلاجواز اور ناجائز طریقے سے غزہ میں فلسطینیوں پر ظلم برپا کیے ہوئے ہے‘۔ مازن کہتا ہے، ''میں اور میرے دوست لوگوں کو گھروں سے غیر قانونی طور بے دخل کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم بچوں کے قتل اور عوامی رہائشی عمارتوں اور ضروری بنیادی ڈھانچوں پر پر راکٹ برسانے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
اسرائیل کا چینی سرکاری ٹیلی وژن پر ’سامیت مخالفت‘ کا الزام
مازن اپنا پورا نام دینا نہیں چاہتے، ان کے ان دلائل کو جرمن عوام متنازعہ سمجھتے ہیں۔ مازن اسرائیل کے بارے میں ایک سخت رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں اگر یہ کہوں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو یہ جھوٹ ہوگا۔ تاہم ہمیں اس معاملے سے نمٹنا چاہیے۔‘‘ مازن کے اس موقف نے انہیں ان مظاہروں میں شرکت سے نہیں روکا جس کا انعقاد فلسطینی اور اسرائیلی تنظیموں کے اشتراک سے ہوا۔ یہ تنظیمیں فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی کارروائیوں اور وہاں کی سیاست کے بارے میں اسرائیل کے موقف پر تنقید کرتی ہیں۔
جرمنی: کورونا وائرس کے خلاف مظاہروں سے سامیت دشمنی میں اضافہ
'سارا مظاہرہ سامیت مخالف نہیں‘
مازن نے اب تک جتنے بھی مظاہروں میں شرکت کی اُسے ان میں سے کسی ایک میں بھی سامیت دشمن یا سامیت مخالف عنصر نظر نہیں نظر آیا لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ ہر احتجاج اور مظاہرے میں مٹھی بھر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو بد سلوکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مازن کے بقول ایسا تو شام میں بھی ہوا کرتا تھا، ''ہم سب جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کرتے تھے اور اس مجمعے میں ایک نا ایک شخص اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس کا نعرہ لگانا شروک کر دیتا۔‘‘ مازن کے بقول، ''آپ ہر کسی کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘‘ جرمنی میں چند لوگ اینٹی سیمیٹک یا سامیت مخالف جذبات بھی رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی کرتے ہیں تام مازن کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام مظاہرے کو سامیت مخالف مظاہرہ قرار دے دیا جائے۔
یہودی عبادت گاہ پر حملہ: ممکنہ سامیت دشمن روابط کی تفتیش جاری
مغربی جرمن شہر گیلزن کرشن میں حالیہ دنوں میں ہونے والے ایک مظاہرے کی ایک ویڈیو )جس میں چند مظاہرین اسرائیل کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے دکھائی دیے) کا حوالہ دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کمیٹی کے سربراہ ایمن مازیک نے ٹویٹر پر تحریر کیا، ''ایسے مکروہ مناظر کی قطعی مذمت کی جانا چاہیے۔ ایسا کر کے نسل پرستی پر تاسف کا اظہار کرنے والے خود سامیت مخالفت پھیلا رہے ہیں۔ ایسے عناصر سب کچھ ضائع کر دیتے ہیں۔‘‘
جرمنی میں سامیت دشمنی کی کوئی گنجائش نہیں، میرکل
اصل مسئلے کی نشاندہی
جرمنی میں قائم مسلم الحمبرا سوسائٹی جو بین الاقوامی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے مقصد سے بنائی گئی ہے کے بانی ایرن گؤورچین کو مذکورہ ویڈیو حیران کن نہیں لگی۔ ان کا ماننا ہے کہ جرمنی میں سامیت مخالف جذبات کبھی کبھار ظاہر کیے جاتے ہیں اور زیادہ تر ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافہ دیکھا جائے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عام یا پُر سکون حالات میں یہ جذبات بالکل نہیں پائے جاتے۔ گؤورچین مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ متعدد انتہا پسند مسلمانوں کی تنظیموں کا مرکزی جزو سامیت دشمنی ہے۔ یہ تنظیمیں اعتدال پسند مسلم معاشروں میں بھی اس جذبے کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''بحیثیت مسلمان ہمیں سب سے پہلے اس معاملے سے نمٹنا چاہیے لیکن زیادہ تر ایسا نہیں ہوتا یہ کوشش ناکام رہتی ہے کیونکہ اس مسئلے کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
اسرائيل کا بائيکاٹ بھی اب ’سامیت مخالف‘ ہو گا: پومپیو
اُدھر جرمن شہر آسنابُروک کی یونیورسٹی کے الہٰیات کے پروفیسر بلنت اُوچر کا کہنا ہے، ''اسرائیل کی فلسطینی علاقوں پر قبضے کی پالیسی کے خلاف ٹھوس دلائل موجود ہیں کیونکہ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔ لیکن ایسے تقطیب کار موجود ہیں جو ان جذبات کو یورپ منتقل کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ یہ عمل قابل قبول نہیں، ''اس امر کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ جرمنی میں یہودیوں کو دھمکایا، ہراساں کیا جائے۔ یہ عوامل ناقابل معافی ہیں۔‘‘
کیتھرین شیئر (ک م/ ا ب ا)