جرمنی میں غریب اور بےگھر افراد کی تعداد میں اضافہ کیوں؟
20 دسمبر 2017جرمنی ایک فلاحی ریاست ہے۔ ریاست، علاقائی حکومتوں اور کلیسائی تنظیموں کی وجہ سے عوام کی دیکھ بھال کا کئی دیگر امیر ممالک کی نسبت یہاں ایک بہتر اور اچھا فلاحی نظام موجود ہے۔ جرمن معیشت ترقی کر رہی ہے اور بے روزگاری کی شرح تاریخی بہتری کے بعد چھ فیصد سے بھی کم ہو چکی ہے۔ دیگر یورپی ممالک کی نسبت جرمنی میں اشیائے خورد و نوش بھی سستی ہیں لیکن اس کے باوجود غربت اس ملک کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔
جرمنی میں بے گھر افراد کی مدد کے لیے کام کرنے والے ایک وفاقی ورکنگ گروپ کے مطابق اس یورپی ملک میں تقریباﹰ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار افراد بے گھر ہیں۔ ان میں سے ایک محدود تعداد سڑکوں پر رہتی ہے جبکہ آٹھ لاکھ کے قریب جرمن شہری عارضی طور پر اپنے دوستوں، رشتہ داروں یا پھر بے گھر افراد کے لیے بنائے گئے ہنگامی مراکز میں رہتے ہیں۔ اگر بالکل صحیح اندازے لگائے جائیں تو تقریباﹰ باون ہزار افراد بے سر و سامانی کی حالت میں گلیوں اور سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان چھ فیصد افراد کو بے گھر افراد کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔
اسی طرح جرمنی آنے والے تقریباﹰ چار لاکھ چالیس ہزار مہاجرین کو قانوناﹰ حق حاصل ہے کہ انہیں کوئی گھر یا فلیٹ میں رکھا جائے لیکن فی الحال انہیں مشترکہ رہائشی یونٹوں میں رکھا گیا ہے۔ جرمنی میں اس صورتحال سے خاص طور پر خواتین، بچوں والے گھرانے اور مہاجرین متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسے افراد کسی بھی وقت اپنے سر پر چھت سے محروم ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستی سطح پر سوشل ہاؤسنگ اسکمیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ تیس سال پہلے تک جرمنی میں تقریباﹰ چار ملین سوشل گھر یا فلیٹ تھے۔ آج زیادہ آبادی والے جرمنی میں ایسے فلیٹس یا رہائش گاہوں کی تعداد سکڑ کر صرف ایک عشاریہ تین ملین تک رہ گئی ہے۔ مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اب مکانوں یا فلیٹس کے کرائے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
چھوٹے مکان تیزی سے مہنگے ہو رہے ہیں کیوں کہ ان کی مانگ زیادہ ہے۔ جرمنی میں چھوٹے مکانوں کی تعداد تقریباﹰ سترہ ملین ہے۔ اس ملک میں ریاستی مالی امداد صرف اسی کو فراہم کی جاتی ہے، جو مہاجر ہے یا پھر اس نے کم از کم اس ملک میں پانچ برس ملازمت کی ہو۔ جو اس کیٹیگری میں نہیں آتا، وہ جلد ہی سڑک پر آ بیٹھتا ہے۔ بے گھر افراد کی مدد کرنے والی تنظیم ’دی ووہنُنگز لوزن ہِلفے‘ کے مطابق یہ صورت حال بہت غلط اور غیر آئینی ہے۔
بے گھر افراد کے لیے سب سے مشکل وقت سردیوں کا موسم ہوتا ہے۔ جرمنی جیسے امیر اور ترقی یافتہ ملک میں سن انیس سو نوے کے بعد سے اب تک قریب تین سو انسانی جانیں اس طرح سڑکوں پر شدید سردی کی وجہ سے ضائع ہو چکی ہیں۔