1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں غریب اور بےگھر افراد کی تعداد میں اضافہ کیوں؟

20 دسمبر 2017

برازیل یا پھر بھارت کی طرح جرمنی میں کوئی کچی آبادیاں نہیں ہیں۔ پہلی نظر میں ہر چیز بہترین نظر آتی ہے۔ لیکن اس ملک میں بھی غربت اور بےگھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2phFN
Obdachlosigkeit in Köln
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg

جرمنی ایک فلاحی ریاست ہے۔ ریاست، علاقائی حکومتوں اور کلیسائی تنظیموں کی وجہ سے عوام کی دیکھ بھال کا کئی دیگر امیر ممالک کی نسبت یہاں ایک بہتر اور اچھا فلاحی نظام موجود ہے۔ جرمن معیشت ترقی کر رہی ہے اور بے روزگاری کی شرح تاریخی بہتری کے بعد چھ فیصد سے بھی کم ہو چکی ہے۔ دیگر یورپی ممالک کی نسبت جرمنی میں اشیائے خورد و نوش بھی سستی ہیں لیکن اس کے باوجود غربت اس ملک کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔

جرمنی میں بے گھر افراد کی مدد کے لیے کام کرنے والے ایک وفاقی ورکنگ گروپ کے مطابق اس یورپی ملک میں تقریباﹰ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار افراد بے گھر ہیں۔ ان میں سے ایک محدود تعداد سڑکوں پر رہتی ہے جبکہ آٹھ لاکھ کے قریب جرمن شہری عارضی طور پر اپنے دوستوں، رشتہ داروں یا پھر بے گھر افراد کے لیے بنائے گئے ہنگامی مراکز میں رہتے ہیں۔ اگر بالکل صحیح اندازے لگائے جائیں تو تقریباﹰ باون ہزار افراد بے سر و سامانی کی حالت میں گلیوں اور سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان چھ فیصد افراد کو بے گھر افراد کے درجے میں رکھا جاتا ہے۔

Deutschland Off Road Kids Stiftung
تصویر: Markus Seidel

اسی طرح جرمنی آنے والے تقریباﹰ چار لاکھ چالیس ہزار مہاجرین کو قانوناﹰ حق حاصل ہے کہ انہیں کوئی گھر یا فلیٹ میں رکھا جائے لیکن فی الحال انہیں مشترکہ رہائشی یونٹوں میں رکھا گیا ہے۔ جرمنی میں اس صورتحال سے خاص طور پر خواتین، بچوں والے گھرانے اور مہاجرین متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسے افراد کسی بھی وقت اپنے سر پر چھت سے محروم ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستی سطح پر سوشل ہاؤسنگ اسکمیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ تیس سال پہلے تک جرمنی میں تقریباﹰ چار ملین سوشل گھر یا فلیٹ تھے۔ آج زیادہ آبادی والے جرمنی میں ایسے فلیٹس یا رہائش گاہوں کی تعداد سکڑ کر صرف ایک عشاریہ تین ملین تک رہ گئی ہے۔ مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اب مکانوں یا فلیٹس کے کرائے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

چھوٹے مکان تیزی سے مہنگے ہو رہے ہیں کیوں کہ ان کی مانگ زیادہ ہے۔ جرمنی میں چھوٹے مکانوں کی تعداد تقریباﹰ سترہ ملین ہے۔ اس ملک میں ریاستی مالی امداد صرف اسی کو فراہم کی جاتی ہے، جو مہاجر ہے یا پھر اس نے کم از کم اس ملک میں پانچ برس ملازمت کی ہو۔ جو اس کیٹیگری میں نہیں آتا، وہ جلد ہی سڑک پر آ بیٹھتا ہے۔ بے گھر افراد کی مدد کرنے والی تنظیم ’دی ووہنُنگز لوزن ہِلفے‘ کے مطابق یہ صورت حال بہت غلط اور غیر آئینی ہے۔

بے گھر افراد کے لیے سب سے مشکل وقت سردیوں کا موسم ہوتا ہے۔ جرمنی جیسے امیر اور ترقی یافتہ ملک میں سن انیس سو نوے کے بعد سے اب تک قریب تین سو انسانی جانیں اس طرح سڑکوں پر شدید سردی کی وجہ سے ضائع ہو چکی ہیں۔