جرمنی میں قابل تجدید توانائی کی ترویج کی کوششیں
14 جنوری 2010شمالی جرمن شہر بریمر ہافن میں قائم ہوا سے توانائی کے حصول اور انرجی سسٹم ٹیکنالوجی کے فراؤن ہوفر انسٹیٹیوٹ کے مطابق ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صنعت میں ترقی کے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے مقابلے میں بحری جہاز تیار کرنے کی صنعت کی سالانہ آمدنی بھی کم بنتی ہے۔
جرمنی میں ہوا سے پہلے توانائی حاصل کرنے اور پھر بجلی پیدا کرنے کی تنصیبات نہ صرف کھلے میدانی علاقوں میں جگہ جگہ لگائی گئی ہیں بلکہ کافی عرصے سے یہی تنصیبات ساحلی علاقوں میں کم گہرے پانیوں میں بھی لگائی جا رہی ہیں۔
بریمر ہافن کے اس انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ہنس گیرڈ بُسمان کے بقول سن 2030 ء تک یہ صنعت اتنی زیادہ ترقی کر چکی ہو گی کہ تب تک اس شعبے میں سرمایہ کاری کی کل مالیت 50 بلین یورو سے تجاوز کر چکی ہو گی۔ اسی لئے کم ازکم شمالی جرمنی میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صنعت ملکی معیشت میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے شعبوں میں گنی جانے لگے گی۔
جرمنی کی سب سے بڑی ریلوے کمپنی ڈوئچے باہن یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ مستقبل میں اس کمپنی کی انٹر سٹی ایکسپریس یا ICE کہلانے والی انتہائی تیزرفتار گاڑیوں میں سے، چھ اس بجلی سے چلائی جائیں گی، جو ہوا سے حاصل ہونے والی توانائی سے پیدا کی جائے گی۔ اس بارے میں ڈوئچے باہن اور مشرقی صوبے برانڈن برگ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ایک ونڈ پارک کے اعلیٰ نمائندوں کے مابین ایک معاہدے کی جملہ تفصیلات طے پا گئی ہیں۔
یہ ونڈ پارک ڈوئچے باہن کو سالانہ قریب ساٹھ گیگا واٹ گھنٹے بجلی مہیا کرے گا۔ اس جرمن ریل کمپنی کے پاس اس وقت مجموعی طور پر 250 انٹر سٹی ایکسپریس گاڑیاں ہیں۔ ان میں سے 16 فیصد ایسی بجلی سے چلتی ہیں جو توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔ ڈوئچے باہن کا ارادہ ہے کہ سن 2020 تک اس کی آبی، ہوائی اور شمسی توانائی سے تیار کردہ بجلی کی مدد سے چلنے والی ایسی ریل گاڑیوں کا تناسب مزید اضافے کے ساتھ تیس فیصد تک کر دیا جائے گا۔
شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کے شعبے میں جرمنی میں آئندہ چار سال کے دوران قریب دس بلین یورو خرچ کئے جائیں گے۔ یہ رقم ملک میں سولر انرجی انڈسٹری کی اس وقت سالانہ آمدنی کا چودہ فیصد بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مالی وسائل شمسی سیل تیار کرنے والے پیداواری یونٹوں کو جدید بنانے پر خرچ کئے جائیں گے اور قریب ایک بلین یورو نئی تحقیق اور جدید تر ٹیکنالوجی کی تیاری پر۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ