جرمنی میں نت نئی ایجادات کی بین الاقوامی نمائش
28 اکتوبر 2010اِس میلے کا نام ہے، ’’تصورات، ایجادات اور اختراعات‘‘ اور اِسے مختصراً IENA کہا جاتا ہے۔ یہاں ماضی میں کئی ایسی چیزیں پیش کی گئیں، جو بعد میں لوگوں میں بہت مقبول ہوئیں اور بے حد کامیاب رہیں۔ خاص طور پر جو لوگ انفرادی طور پر کوئی نئی چیز ایجاد کرتے ہیں، اُن کے لئے یہ نمائش پہلی کڑی آزمائش ثابت ہوتی ہے۔ یہاں اُنہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ آیا اُن کی پیش کردہ ایجاد میں واقعی اتنی جدت اور نیا پن ہے کہ اُسے بڑی تعداد میں تیار کر کے بازار میں لایا جا سکتا ہے۔ تاہم زیادہ تر ایجادات اِس طرح کی کسی انفرادی کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ نوے فیصد اختراعات کے خاکے مختلف صنعتی اداروں میں تیار کئے جاتے ہیں۔
اِس بار بھی 800 کے قریب موجد نورنبرگ کی بین الاقوامی نمائش میں شریک ہیں اور یہ امید کر رہے ہیں کہ جرمن یا غیر ملکی کمپنیاں اُن کی ایجادات کو بڑی تعداد میں تیار کر کے بازار میں لانے کے قابل سمجھیں گی۔ ایسے ہی ایک موجد جرمنی کے مارکُس ملر ہیں، جنہوں نے ایک ایسی مشین تیار کی ہے، جس کی مدد سے فرش کو زیادہ آسانی اور صفائی کے ساتھ پلستر کیا جا سکتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ اس مشین کی تیاری پر ہزاروں خرچ کر چکے ہیں اور اب امید کرتے ہیں کہ اِس مشین کو صنعتی طور پر تیار کیا جا سکے گا اور یوں نہ صرف اِس پر خرچ ہونے والا پیسہ واپس آئے گا بلکہ آمدنی بھی حاصل ہو گی۔
اِس مشین کی قیمت دو ہزار یورو ہے۔ چند ایک تعمیراتی فرموں نے اِس میں دلچسپی بھی ظاہر کی ہے کیونکہ اِس کے ذریعے پلستر کرنے والے کو گھٹنوں کے بل فرش پر جھک کر کام نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ کھڑے کھڑے یہ کام انجام دے سکتا ہے۔ اب لیکن بڑا مسئلہ ایک ایسا صنعتی ادارہ تلاش کرنے کا ہے، جو اِس مشین کو تیار کرنے پر راضی ہو جائے۔
مارکُس ملر کی طرح کے موجدوں کی بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ اُن پر اپنی ایجاد جلد از جلد بازار میں لے آنے کے لئے دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اِس دباؤ کی وجہ بیان کرتے ہوئے اِس بین الاقوامی نمائش کی خاتون انچارج لیڈیا سیٹل کہتی ہیں: ’’موجد کو بینک بھی کوئی رقم نہیں دیتے کیونکہ بینک بھی نہیں جانتے کہ کوئی ایجاد واقعی کامیاب ہو کر بازار میں بھی آئے گی۔ زیادہ تر موجدوں کے پاس کوئی اپنا مکان بھی نہیں ہوتا کہ جس پر وہ قرضہ لے سکیں۔ اُن کے پاس بس اپنی ایجاد ہوتی ہے، جس کے بارے میں وہ نہیں جانتے کہ اُسے قبولِ عام کا درجہ بھی حاصل ہو گا یا نہیں۔‘‘
گزشتہ برس جرمنی میں س60 ہزار اختراعات کو پیٹنٹ کروایا گیا تھا۔ اِس بار متعارف کروائی جانے والی ایجادات میں جرمن موجد تھوماس رانک کا ایک پہیے والا ’فلائی راڈ‘ بھی شامل ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ ’فلائی راڈ‘ پر بیٹھ کر انسان کو ایسا ہی محسوس ہو گا کہ گویا وہ اُڑ رہا ہے۔ اِس ایجاد کے ایک سرے پر ایک پہیہ لگا ہے اور دوسرے پر موٹر سائیکل کا ہینڈل۔ اب اگر آپ نے پہیوں والے جوتے بھی پہن رکھے ہیں تو ’فلائی راڈ‘ پر بیٹھ کر آپ ویسے ہی ’اُڑ‘ سکیں گے، جیسے تصاویر اور فلموں میں جادوگرنیوں کو ایک جھاڑو پر بیٹھ کر اُڑتے دکھایا جاتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک