جرمنی میں ٹائلٹ ٹیکس کی چوری کا منفرد مقدمہ
27 اگست 2022جرمنی میں ایک خاتون پر الزام ہے کہ وہ کئی برسوں کے دوران عوامی بیت الخلا میں رضاکارانہ ادائیگیوں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدن ظاہر کرنے میں ناکام رہی۔
جمعرات کے روز جرمن شہر کوٹبس میں ایک 49 سالہ خاتون پر مقدمہ چلایا گیا، جس پر ہائی وے سروس اسٹیشنوں اور ریستورانوں جیسی جگہوں پر بیت الخلا سے حاصل ہونے والی آمدنی سے تقریباﹰ 12 لاکھ یورو مالیت کا ٹیکس ادا نہ کرنے کا الزام ہے۔
عام طور پر عوامی مقامات اور ریستورانوں جیسی جگہوں پر موجود ٹائلٹس کے باہر ایک پلیٹ رکھ دی جاتی ہے۔ بیت الخلا استعمال کرنے والے رضاکارانہ طور پر اس پلیٹ میں اپنی منشا کے مطابق کچھ سکے رکھ دیتے ہیں۔
اس خاتون پر الزام ہے کہ اس نے 2005 اور 2008 کے درمیان آٹھ الگ الگ واقعات میں ایسی ٹائلٹس سے رضاکارانہ طور پر دی گئی رقم کی صورت میں حاصل ہونے والی آمدنی کو چھپایا اور اس دوران وہ ٹائلٹس کی صفائی کرنے والی کمپنی بھی چلاتی رہی۔
مقدمہ شروع ہوا تو خاتون نے پہلے دن اپنے خلاف ٹیکس چوری کے الزامات کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔
مقدمات 14 یا اس سے زیادہ سال پہلے کے ہیں
یہ مقدمہ کئی طرح سے پیچیدہ ہے۔ یہ ظاہر کرنا کہ کتنی رقم ادا کی گئی تھی انتہائی مشکل ہے، کیوں کہ رضاکارانہ طور پر ادا کی جانے والی رقوم طے شدہ نہیں ہوتیں۔ جج نے کہا کہ ٹائلٹس سے روزانہ کی آمدنی مختلف جگہوں پر مختلف ہوتی ہے اور یومیہ 30 سے 500 یورو تک ہو سکتی ہے۔
وکیل استغاثہ ایلویرا کلائن نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کو ایسے نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہو گی، جس کا امکان سب سے زیادہ ہے، اور جو حقیقت کے زیادہ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘
جج نے کہا کہ استغاثہ کی جانب سے 12 لاکھ یورو ٹیکس کی رقم زیادہ دکھائی دیتی ہے، اور اس کے جواب میں چھ لاکھ یورو کا تخمینہ پیش کیا گیا۔
دوسری جانب یہ امر بھی مقدمے کو مزید پیچیدہ کیے ہوئے ہے کہ تفتیش کے بعد مقدمے کو عدالت تک پہنچاتے ہوئے قریب 15 برس لگے، جس کی وجہ سے استغاثہ پر اضافی ذمہ داری بھی پڑ جاتی ہے۔
جرمنی میں ٹیکس سے متعلق قوانین میں 10 برس سے پرانے مقدمات ختم ہو جاتے ہیں۔ صرف ٹیکس چوری کے ’سنجیدہ معاملات‘ یعنی جن میں کم از کم 50,000 یورو ٹیکس چوری کیے گئے ہوں، پر 10 سالہ حد کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔ استغاثہ کے مطابق وہ مجموعی طور پر آٹھ ایسی مثالوں کی شناخت کر سکتے ہیں جو اب بھی اہل ہیں۔
دوسری جانب جمعرات کے روز پہلی گواہ نے یہ دلیل دینے کی کوشش کی کہ جس شخص کو واقعی الزامات کا سامنا کرنا چاہیے، وہ اب زندہ نہیں۔
ملزمہ کی والدہ پہلی گواہ، الزام اپنے ساتھی پر
ملزمہ کی والدہ پہلی گواہ تھیں۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگرچہ ان کی بیٹی کمپنی کی چیف ایگزیکٹیو ہے لیکن ان کا محصولات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے بوائے فرینڈ نے کاروبار سنبھال رکھا تھا، جب کہ ان کی بیٹی کھاتے سنبھالنے سمیت دیگر امور کی ذمہ دار تھی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا، ’’میری بیٹی کوئی رقم نہیں چاہتی تھی۔‘‘
ملزمہ کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کی مؤکلہ کو پلیٹوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کی رقم کا علم نہیں ہے اور انہیں کاروبار کی ’حقیقی جہتوں‘ کے بارے میں بھی زیادہ معلومات نہیں۔
دوسری جانب استغاثہ کا کہنا ہے کہ مقدمہ اس وجہ سے زیادہ مشکل بن گیا کہ ادائیگیوں کے بارے میں کمپنی کا ریکارڈ نہیں مل سکتا۔
جرمنی میں ٹپ کی مد میں ملنے والی رقوم ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہیں، لیکن صرف اس صورت میں جب ٹپ ملازم کو دی جائے۔ رضاکارانہ ٹپ اور ایسی دیگر آمدن اگر کسی کمپنی کے کھاتے میں جمع ہو تو ایسی صورت میں اسے آمدنی میں ظاہر کرنا لازم ہے اور وہ ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہوتی۔
ان پہلوؤں کے علاوہ عدالت کو اس مقدمے میں ایک اور مشکل بھی درپیش ہے اور یہ معاملہ ہے دائرہ اختیار کا۔ کمپنی 78 مختلف ٹائلٹس کی صفائی کا کام کرتی تھی جن میں سے چار جرمنی میں نہیں بلکہ آسٹریا میں ہیں۔ اس لیے یہ سوال بھی درپیش ہے کہ آیا ان جگہوں سے حاصل شدہ آمدنی پر جرمن قوانین کا اطلاق ہو سکتا ہے۔
فی الوقت مقدمے کی سماعت کے لیے چھ دن مقرر کیے گئے ہیں اور اس دوران کوٹبس کے ٹیکس آفس سمیت 28 گواہوں کو بلائے جانے کی توقع ہے۔
ش ح / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)