پانچ سو سے زائد مشتبہ افراد حملہ کر سکتے ہیں،جرمن وزیر داخلہ
11 ستمبر 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزئر کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک میں اس وقت پانچ سو بیس ایسے افراد کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں، جو حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جرمن روزنامے بلڈ سے گفتگو میں ڈے میزئر نے کہا ہے کہ سکیورٹی ادارے ایسے تین سو ساٹھ مشتبہ افراد کی نگرانی بھی کر رہے ہیں تاکہ ممکنہ حملوں سے بچا جا سکے۔
مہاجرت کے بحران کے بعد جرمنی میں متعدد پرتشدد حملے کیے جا چکے ہیں، جن میں سے جولائی میں ہوئے ایک حملے کی ذمہ داری داعش نے بھی قبول کی تھی۔
تھوماس ڈے میزئر کے مطابق جرمن میں موجود اسلام پسند جنگجو اپنے طور پر یا کسی گروپ کے ساتھ مل کر ایسے مزید حملے کر سکتے ہیں۔
نائن الیون حملوں کی پندرہیوں برسی کی مناسبت دیے گئے اس انٹرویو میں ڈے میزئر نے کہا کہ جرمنی کو اب نہ صرف جہادی گروہوں سے خطرات لاحق ہیں جبکہ کچھ افراد اپنے طور پر اکیلے ہی حملے بھی کر سکتے ہیں۔
جرمن وزیر نے پیرس اور بیلجیم میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپ آنے والے جنگجو خفیہ طور پر اپنے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
جرمن وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ زیادہ خطرہ ایسے انتہا پسندوں سے ہے، جو اپنے طور پر ہی ایسے حملے کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے ارادوں کا پتہ لگانا زیادہ مشکل ہے۔
تاہم ڈے میزئر نے کہا کہ جرمن حکام ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے ممکنہ خطرات کو ختم کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ خفیہ ادارے ایسے مشتبہ افراد کی مانیٹرنگ کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسی لیے رواں برس زیادہ تعداد میں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
جرمنی میں بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ داعش کے بہت سے جنگجو مہاجرین کا روپ دھار کر جرمنی میں داخل ہو چکے ہیں، جو مستقبل میں اس ملک میں خونریز کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
گزشتہ برس صرف جرمنی آنے والے ایسے مہاجرین کی تعداد ایک ملین سے زائد تھی۔ ایسے خدشات کے باوجود برلن حکومت متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ تمام مہاجرین کو ’جنگجو‘ مت تصور کیا جائے۔
اس بحران کی وجہ سے عوامی مقبولیت کے کم ہو جانے کے باوجود جرمن چانسلر انگیلا میرکل مصر ہیں کہ مہاجرین کو پناہ دی جائے گی اور ان کی حکومت اس بحران پر قابو پا لے گی۔
دورسری طرف میرکل کی مہاجر دوست پالیسی پر جہاں عوامی سطح پر تحفظات میں اضافہ ہوا ہے، وہیں جرمن چانسلر کے اپنے سیاسی اتحاد میں شامل کئی سیاستدان بھی انہیں کھلے عام تنقید کا نشانہ بنانے لگ گئے ہیں۔