1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر

شمشیر حیدر
14 جنوری 2017

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کی نئی سربراہ یُوٹا کورٹ کا کہنا ہے کہ موسم بہار کے اختتام تک جرمنی میں جمع کرائی گئی پناہ کی تمام پرانی درخواستوں پر فیصلے سنا دیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/2VoKe
Bundesamt für Migration und Flüchtlinge BAMF
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

یُوٹا کورٹ حال ہی میں جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کی سربراہ تعینات ہوئی ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ڈیڑھ ملین سے زائد تارکین وطن کی آمد کے باعث ملک میں سیاسی پناہ کی لاکھوں درخواستوں پر اب تک فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔

یورپ آنے والے سبھی مہاجرین کی دوبارہ جانچ پڑتال کا مطالبہ

آئندہ مہینوں کے دوران تمام درخواستیں نمٹانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کورٹ نے کہا، ’’ہم نے ہدف مقرر کیا ہے کہ موسم بہار کے اواخر تک جرمنی میں جمع کرائی گئی پچھلی تمام پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنا دیے جائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پناہ کے متلاشی افراد کو جلد از جلد معلوم ہو سکے کہ کیا انہیں جرمنی میں رہنے کی اجازت ہے یا نہیں۔‘‘

حالیہ عرصے کے دوران بی اے ایم ایف کی جانب سے نمٹائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ 2016ء کے دوران اس ادارے نے قریب سات لاکھ درخواستوں پر فیصلے سنائے تھے۔ تاہم اب بھی چار لاکھ چونتیس ہزار تارکین وطن جرمنی میں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔

علاوہ ازیں وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن اس سال جمع کرائی جانے والی درخواستوں پر فیصلے بھی پہلے کی نسبت کم دورانیے میں کرے گا۔

2016ء کے دوران قریب دس ہزار پاکستانی شہریوں کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے گئے۔ ان میں سے محض 353 افراد یا 3.5 فیصد کو پناہ دی گئی جب کہ باقی تمام درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔

اس کے برعکس افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچپن فیصد رہا جب کہ عراقی تارکین وطن میں سے بھی ستّر فیصد کو جرمنی میں پناہ دے دی گئی۔ شام سے تعلق رکھنے والے قریب سبھی (98.1 فیصد) درخواست دہندہ شہریوں کو بھی جرمنی میں بطور مہاجرین پناہ دے دی گئی۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں 

مشرقی یورپ میں مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا