جرمنی میں ڈوپنگ کے خلاف عوامی بیداری کی مہم
30 اگست 2009ڈوپنگ یا کھلاڑیوں کی جسمانی صلاحیت کو بڑھانے والی ممنوعہ ادویات کے استعمال کا ذکراب تواتر سے سننےکو ملتا ہے۔ دنیا میں ایتھلیٹکس ہوں یا سوئمنگ، باکسنگ ہو یا کرکٹ، ہر کھیل میں ڈوپنگ کا کوئی نہ کوئی کیس سامنے آتا ہی رہتا ہے۔ ایک طرف ڈوپنگ پر قابو پانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو دوسری جانب اس کے نت نئے طریقے بھی سامنے آ رہے ہیں۔ نوجوان کھلاڑیوں اور کھیل کے شعبے، دونوں کے لئے ہی ممنوعہ ادویات کے استعمال کے نتائج بہت نقصان دہ ہیں۔ یہ واضح کرنے کے لئے جرمنی کی ایجنسی NADA نے Geminsam gegen Doping - Ich bin Sauber، یعنی "ڈوپنگ کے خلاف مشترکہ طورپر، میں ڈوپنگ نہیں کرتا" کے نام سے ایک ایسی مہم شروع کی ہے، جس کا مقصد ڈوپنگ کے خلاف عوامی شعور میں اضافہ ہے، اور جس کے تحت ناڈا کے ارکان جرمنی کے مختلف اسکولوں کے دورے کر رہے ہیں۔
جرمنی کی نیشنل اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی کوشش ہے کہ ممنوعہ ادویات کے استعمال کے خلاف تعلیمی اداروں کی سطح پر نوجوانوں کے شعور میں اضافہ کیا جائے۔ جرمنی میں مستقبل میں کھیلوں کے ان معماروں کو ابتداء میں ہی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ڈوپنگ کے کیا نقصانات ہیں ؟ اور ڈوپنگ ٹیسٹ کس طرح سے کیا جاتا ہے؟ ناڈا کی ڈائریکٹر اُلریِکے اشپٹز نےاس حوالے سے جرمن شہر ہیمبرگ کے ایک سکول کا دورہ کیا۔ اُلریِکے کے مطابق ان کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ طالب علموں سے ڈوپنگ کے موضوع پرکھُل کر بات کر سکیں۔ انہوں نے کہا اس وقت ایسے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے، جنہیں اس بارے میں تمام تر معلومات ہوں، جنہیں علم ہوکہ ڈوپنگ کےکیا نقصانات ہوتے ہیں۔ انہیں یہ پتہ ہونا بھی ضروری ہےکہ ایسا کرنے پر صرف کھلاڑیوں پرعمومی پابندی ہی نہیں لگتی بلکہ ایسا کرنے والا اولمپک مقابلوں میں بھی کبھی شرکت نہیں کر سکتا۔ ڈوپنگ کے انسانی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں بتانا بھی ضروری ہے۔ ساتھ ہی یہ واضح کرنا بھی لازمی ہےکہ شفاف طریقوں سے مقابلوں میں حصہ لینا ہی کھلاڑیوں کے مفاد میں ہوتا ہے۔ اسی لئے ہرکھلاڑی کو یہ فیصلہ خود کرنا چاہیے کہ وہ یہ ممنوعہ ادویات استعمال نہیں کرے گا۔
ڈوپنگ آخر ہے کیا ؟ کونسی ادویات کا استعمال ممنوع ہے؟ اور ڈوپنگ ٹیسٹ کے دوران کسی کھلاڑی کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ اوراس طرح کے بہت سے سوالات اور ان کے جوابات اُس لیکچرکا حصہ ہوتے ہیں جو جرمنی کی نیشنل اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی جانب سے اسکولوں کی سطح پر دیئے جا رے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے، مثال کے طور پر یہ کہ خشخاش سے بنا کیک کھانے سے بھی ڈوپنگ ٹیسٹ مثبت آ سکتا ہے۔ الُرِیکے کے مطابق ان کے ایک حالیہ لیکچر کے دوران اس وقت خاموشی چھا گئی جب طلبہ و طالبات کے سامنے سکرین پر وہ تصاویر آئیں جن میں دکھایا گیا تھا کہ ڈوپنگ انسانی صحت کو کس طرح اور کتنا نقصان پہنچاتی ہے۔ ان کے بقول جب وہ کسی نوجوان ایتھلیٹ کو یہ بتاتی ہیں کہ ڈوپنگ کے لئے استعمال کی جانے والی دوا EPO خون کو گاڑھا کردیتی ہے اور اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے، تو وہ اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ لیکن جب وہ تصاویر دیکھتا ہے، جن میں اس دوا کے استعمال سے جلد پر پڑنے والے دھبے دیکھے جاسکتے ہیں، تو وہ تصاویراس پر زیادہ اثر کرتی ہیں۔
الُرِیکے کا کہنا ہےکہ اس مہم میں قومی سطح کےکھلاڑی بھی حصہ لے رہے ہیں اوراس کے نتائج کافی مثبت ہیں۔ اس بارے میں جرمن قومی والی بال لیگ کی کھلاڑی نتالی کُک زےوا نے کہا کہ جو ادویات ڈاکٹرز لکھ کر دیتے ہیں انہیں بھی پہلے ڈوپنگ کی لسٹ میں چیک کر لینا چاہیے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے تجربے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ جب وہ زخمی ہوئی تھیں اور ڈاکٹر نے انہیں ایک دوائی لکھ دی۔ اس دوائی کے بارے میں صحیح طور سے علم نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے میڈیکل اسٹور میں جا کر لسٹ چیک کی اور جب وہاں بھی اس دوا کے بارے میں صحیح معلومات حاصل نہ ہو سکیں توانہوں نے وہ دوائی استعمال ہی نہیں کی۔
ناڈاکی جانب سے شروع کی جانے والی اس مہم کو بہت سے نوجوان ایتھلیٹس نے سراہا ہے۔ ناڈا کی ڈائریکٹر کی یہ کوشش ہے کہ نوجوانوں کو اس بات کا بخوبی علم ہو کہ ڈوپنگ ٹیسٹ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے اوراگر اس کے نتائج مثبت نکلیں، تو بعد کے نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ جرمن اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی مہم ’ڈوپنگ کے خلاف مشترکہ طور پر، میں ڈوپنگ نہیں کرتا‘ کی اگلی منزل شہر اےسن کا ایک اسکول ہوگا اور یہ دورہ جنوری 2010ء میں کیا جائے گا۔