جرمنی میں کوئلے کی کان کنی کا اختتام
جرمنی کی ڈیڑھ سو سالہ صنعتی ترقی میں سیاہ کوئلے کی کان کنی کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اب اس کان کنی کے سلسلے کی آخری کان ’پراسپر ہانیل‘ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ اس آخری کان کے بند ہونے پر کئی افراد افسردہ بھی ہیں۔
’اداس تبدیلی‘
جرمنی کے رُوہر علاقے کے شہر بوٹراپ کے بعض مکین ’پراسپر ہانیئل‘ کان کو بند کرنے پر کسی حد تک افسردہ بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے، جن کے خاندان ان کانوں میں گزشتہ تین نسلوں سے کام کرتے چلے آئے تھے۔ یہ کان جرمنی میں سیاہ کوئلے کی آخری کان تھی۔ اس کان سے نکالا گیا آخری کوئلہ جرمن صدر فرانک والٹر اسشٹائن مائر کو تحفہ کیا گیا۔
سیاہ سونا
کوئلہ ایک ایسی شے ہے، جس کو کھلے موسم میں بھی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ تصویر میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ کوئلے کو ریل گاڑیوں کے ذریعے کھپت کے لیے مختلف مقامات تک پہنچایا جاتا تھا۔ ایک بڑی مقدار میں کوئلہ جرمنی سے برآمد بھی کیا جاتا تھا۔ جرمنی کے سخت سیاہ کوئلے کی مانگ دنیا بھر میں بہت زیادہ رہی ہے۔
کان کنی کے کام کی وقعت
جرمنی میں کان کنی صرف ایک مناسب آمدن کا ذریعہ ہی نہیں تھا بلکہ کانوں میں کام کرنے والوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا۔ کانوں میں کام کرنے والے بھی آپس میں بہت گہرے تعلق میں بندھے رہتے تھے۔ اُن کی یکجہتی پیشہ ورانہ تفاخر کا مظہر خیال کی جاتی رہی ہے۔ تصویر میں پراسپر ہانیئل کان کے کان کن کھڑے ہیں۔
کام اور زندگی
کوئلے کی کانوں کے مالکان ہی کان کنوں کے مکانات کی تعمیر کیا کرتے تھے اور یہ مکانات کان کے قریبی علاقوں میں تعمیر کیا جاتے تھے۔ مکانات کے اردگرد باغات بنانے کا رواج بھی رہا ہے۔ کانوں میں کام کرنے والے کان کن اپنے شوق کے لیے مرغیاں اور سور بھی پالتے تھے۔ بعض کان کن کبوتروں کے ڈربے بھی رکھتے تھے۔ یہ مکانات رفتہ رفتہ عام لوگوں میں مقبول ہونے لگے کیونکہ یہ ایک طرح سے باغ دکھائی دیتے تھے۔
اناطولیا کے ساتھی
دوسری عالمی جنگ کے بعد جنوبی یورپ اور ترک علاقے اناطولیا سے بھی کان کن جرمن کانوں میں کام کرنے کے لیے آئے۔ کئی ایسے کان کن پولینڈ میں واقع کوئلے کی کانوں میں بھی کام کرتے تھے۔ ایسے کئی کان کنوں نے ہمیشہ کے لیے جرمنی اور پولینڈ میں رہنے کو ترجیح دی۔
اولین دراڑیں
سن 1950 اور 1960 کی دہائیاں جرمن علاقے رُوہر کی کان کنی کی صنعت کے لیے ’سنہرا دور‘ تصور کی جاتی ہیں۔ ان کانوں میں زوال کی دراڑیں تب پیدا ہونا شروع ہوئیں جب ان کی زیر زمین گہرائی بڑھتی گئی۔ جتنی گہرائی بڑھتی ہے اتنی ہی کان کنی مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جاتی ہے۔ کئی کانیں پندرہ سو میٹر تک گہری تھیں۔ کان کنی کے مہنگا ہونے سے جرمن کوئلے کی مانگ میں کمی پیدا ہونے لگی۔
ماحول کے لیے نقصان دہ
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رُوہر کا علاقہ اپنی کثیف ہوا کی وجہ سے بدنام رہا ہے۔ کوئلے کی کانوں کے پاس کے علاقے میں سیاہ خاک کی تہہ کھلے عام رکھی اشیا پر جم جاتی تھی۔ اس تصویر میں اوبرہاؤزن شہر کی فضا میں پھیلا دھواں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ شہر بوٹراپ سے زیادہ دور نہیں ہے۔
کان کنی سے زیر زمین عدم استحکام
رُوہر علاقے میں کان کنی اب بند ہو چکی ہے لیکن اب بھی زیر زمین گہری کانوں کی کھدائی سے عدم استحکام کی کیفیت محسوس کی جاتی ہے۔ ان اندرونی کانوں کے اچانک منہدم ہونے سے ریلوے ٹریک اور مکانات کو کئی مرتبہ نقصان پہنچ چکا ہے۔
یہ کام ابھی تک نہیں ہوا
رُوہر علاقے میں کئی مقامات گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں کی کان کنی کی وجہ سے پچیس میٹر تک نیچے دھنس چکے ہیں۔ زیر زمین کانوں کی کھدائی کے نقصانات ابھی تک دیکھے جا رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح اچانک بلند ہو کر مکانات کے لیے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ اس پانی کی بلند سطح کو پمپوں کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ اس نقصان کا ازالہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا اور اسے ’آفاقی نقصان‘ قرار دیتے ہیں۔
اب باقی کیا بچا ہے؟
کان کنی کے اختتام کے بعد اب کانوں کے علاقے میں بنایا گیا مینار گرا دیا گیا ہے۔ کئی قریبی علاقوں میں کئی عمارتوں کو بھی منہدم کیا جا چکا ہے اور کانوں کے ارد گرد کے علاقوں کو ہرا بھرا کیا جا چکا ہے۔ بعض صنعتی علاقوں کو تفریحی پارکوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سارے علاقے ابھی باقی ہیں۔ ایسن شہر کا زولفرائن کو اس کی شناخت کے حوالے سے یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کر لیا گیا ہے۔