1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں گردوارے پر حملہ، دو نوجوان مشتبہ ملزمان گرفتار

امتیاز احمد22 اپریل 2016

جرمنی کے شہر اَیسن میں سکھوں کے ایک گردوارے میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد پولیس نے سولہ برس کی عمر کے دو لڑکوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ گزشتہ شب ایک تیسرا مشتبہ ملزم بھی گرفتار کیا گیا تھا، جسے بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1IajK
Deutschland Essen Anschlag Gebtshaus Sikh
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch

ابتدائی اطلاعات کے مطابق گردوارے کے دروازے کے سامنے دیسی ساخت کے بم سے حملہ کرنے والے دونوں مشتبہ نوجوانوں کی عمریں صرف سولہ برس ہیں جبکہ یہ دونوں سلفی نظریات سے متاثر ہیں۔ جرمن اخبار ’ٹاگس اشپیگل‘ کے مطابق یہ واقعہ ہر حال میں قابل مذمت ہے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ مشتبہ ملزمان مبینہ طور پر یہ سمجھ رہے تھے کہ جسے وہ نشانہ بنا رہے ہیں، وہ ہندوؤں کی کوئی عبادت گاہ ہے اور انہیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ہندو اور سکھ دو علیحدہ علیحدہ مذاہب کے پیروکار ہوتے ہیں۔

مقامی پولیس اس سلسلے میں اپنی طرف سے بھرپور تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ اَیسن پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے گئے تیسرے مشتبہ ملزم کو رہا کر دیا گیا ہے۔

مشتبہ ملزمان نے گزشتہ ہفتے کے روز اس گردوارے کے سامنے ایک بم دھماکا کیا تھا۔ اس دھماکے سے پہلے وہاں ایک شادی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے اور ان میں سے ایک شدید زخمی ہے۔

Deutschland Essen PK zu Anschlag Gebtshaus Sikh
اَیسن پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے گئے تیسرے مشتبہ ملزم کو رہا کر دیا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch

جمعرات کے روز اَیسن شہر کی ایک مقامی عدالت نے دونوں مشتبہ ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے تھے۔ اب ان دونوں زیر حراست ملزمان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

اَیسن کی پولیس کے مطابق وہ اس بات کی چھان بین جاری رکھے ہوئے ہے کہ آیا ان دونوں کے علاوہ بھی کوئی شخص اس کارروائی میں ملوث رہا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ اس حملے کے پیچھے مزید افراد کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ اس حملے کی وجوہات کیا تھیں؟

اس کارروائی کے باوجود مقامی سکھ کمیونٹی آئندہ ہفتے کے روز اسی جرمن شہر کے مرکز میں پہلے طے شدہ ایک ’نگر کیرتن‘ نامی مذہبی ریلی کا انعقاد کرے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس میں ہزاروں سکھ شرکت کریں گے۔ یہ ایک مذہبی رسم ہے لیکن اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ معاشرے کے دیگر افراد بھی جرمنی میں بسنے والی سکھ برادری کے بارے میں جان سکیں۔

اَیسن پولیس کے مطابق اس کارروائی کے بعد سے پولیس کے تقریباﹰ ایک سو اہلکار تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کا مقصد سکھ کمیونٹی کے اعتماد کو بحال کرنا بھی ہے۔

دوسری جانب یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پولیس ان دونوں مشتبہ ملزمان کے رجحانات کو پہلے سے بھی کسی حد تک جانتی تھی۔ اسی لیے اس حملے کے بعد اب یہ چھان بین کی جا رہی ہے کہ آیا یہ حملہ ان دونوں ملزمان کی ذاتی کارروائی ہے یا اس میں کسی شدت پسند گروہ کا بھی ہاتھ ہے۔