جرمنی میں گرمی اور بدلتے موسم کا توڑ ’اسفنج سٹی‘
26 جولائی 2016پیدل چلنے والے راستوں پر زیادہ سے زیادہ سایہ دار درخت ہوں گے۔ گھروں کی چھتیں گھاس اور کائی وغیرہ سے ڈھکی ہوں گی۔ عمارتوں کے بیرونی رنگ ہلکے رکھے جائیں گے تاکہ یہ عمارتیں گرمی کو جذب کرنے کی بجائے اسے منعکس کریں۔ سڑکیں گرمی کے خلاف مزاحمت کرنے والے ایسے تارکول سے بنائی جائیں گئی، جو شدید گرمی میں بھی نہ پگھلے۔ شہروں میں مزید تالاب اور جھیلیں بنائی جائیں گی تاکہ تیز بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔
گرمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پیش کی جانے والی یہ صرف چند تجاویز ہیں، جبکہ ماہرین کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں ایسی درجنوں تجاویز کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اقدامات برلن شہر کو آئندہ برسوں اور عشروں میں اس قابل بنا دیں گے کہ یہ شہر موسمیاتی تبدیلیوں اور گرمی کا مقابلہ کر سکے۔
برلن شہر کی انتظامیہ سن دو ہزار سات سے موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی گرمی کے خلاف منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اب انتظامیہ طویل المدتی منصوبوں کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں جرمنی کے علاوہ کئی دیگر ملکوں کو اس سے بھی زیادہ شدت سے متاثر کریں گی لیکن ان کے اثرات شمالی یورپ پر بھی پڑ رہے ہیں اور ان سے نمٹنے کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔ سن دو ہزار تین کے دوران جرمنی میں گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس کے بعد سے جرمنی کے کئی شہر سیلابوں اور غیر معمولی تیز بارشوں سے متاثر ہو چکے ہیں۔ جرمنی میں بیسویں صدی کے دوران اس طرح کے موسمیاتی واقعات نہ ہونے کے برابر تھے۔
شہر کی زمین اسفنج بنے گی
برلن میں اس پروگرام کے انچارج اور میونسپل افسر ہائیکے اسٹوک کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس منصوبے میں سب سے اہم اور مرکزی کردار پانی کا ہے، ’’ہم نے ایک نیا لفظ اسفنج سٹی متعارف کروایا ہے۔ مقصد یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سطح زمین کو کنکریٹ اور تارکول یا سیمینٹ وغیرہ سے بچایا جائے۔ مثال کے طور پر سڑکوں، پارکنگ ایریاز اور گلیوں کی تعمیر میں ایسے طریقے اختیار کیے جائیں، جن سے پانی زمین کے اندر جذب ہو سکے۔‘‘
ان کے مطابق مکانوں اور بڑی عمارتوں کی چھتوں پر گھاس یا کائی لازمی اگائی جائے گی تاکہ پانی جذب ہو سکے اور سخت گرمی میں یہ پانی خود بخود بخارات میں تبدیل ہو جایا کرے۔ اس طریقے سے ماحول میں بالکل اسی طریقے سے ٹھنڈک پیدا ہو گی، جیسے پسینہ جسم کو زیادہ گرم ہونے سے بچاتا ہے۔
ہائیکے اسٹوک کہتے ہیں، ’’ہم تالابوں اور جھیلوں کے ساتھ ساتھ پارکوں اور سرسبز جگہوں میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان میں گھروں میں لان اور سڑکوں کے ارد گرد درختوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔ ہمارا مقصد بارش کے پانی کو محفوظ بنانا ہے اور اسے آہستہ آہستہ استعمال میں لانا ہے نہ کہ وہ ایک دم دریاؤں تک بہہ جائے۔‘‘ اب کا کہنا تھا کہ اس طرح دارالحکومت میں پانی کے معیار میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔